غزہ میں حماس اسرائیل جنگ کو 6ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے ، اس دوران اسرائیل نے معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر خوب دل کی بھڑاس نکالی، یہ جنگ تو دراصل تھی ہی اسرائیل اور معصوم فلسطینیوں کے درمیان، حماس کا تو ایک بہانہ تھا۔ حماس کے کتنے مجاہدین کو اس جنگ میں نشانہ بنایا گیا اور کتنے معصوم شہری اس جنگ میں اسرائیلی درندگی کا شکار ہوئے؟اسرائیل نے حماس کے بہانے گھروں، ہسپتالوں، سکولوں اور مہاجر کیمپوں پر براہ راست حملے کیے لیکن کہیں حماس کے مجاہدین کی قابل ذکر شہادتیں نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کے ٹھکانے اسرائیلیوں کے ہاتھ آئے ، نقصان ہوا تو صرف عوام کا ۔ اسرائیل کے گھناؤنے عزائم روز اول سے بتا رہے تھے کہ وہ محض فلسطینیوں کو شہید کرنا چاہتے ہیں ، بچی کھچی فلسطینی زمین بھی ہتھیانے کے لیے ۔ جس کی وجہ سے انہوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور خواتین اور بچوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا ۔ پوری دنیا جانتی ہے بلکہ تسلیم بھی کرتی ہے کہ یہ جنگ فلسطینیوں کی نسل کشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس جنگ میں حماس کے بے سرو سامانی کی حالت میں بھی اسرائیل ، امریکہ اور یورپی ممالک کی جدید ترین افواج اور اسلحے کے باوجود اسرائیل کو دھول چٹا دی ۔ حماس نے عالمی طاقتوں کے سامنے بند باندھ دیا اور نہایت ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور اسرائیلی اور امریکی فوجیوں کو کافی نقصان پہنچایا ۔ اسرائیل نے سرتوڑ کوشش کی کہ وہ کسی طرح حماس کے ٹھکانوں کا پتہ لگا لیں، امریکہ و یورپ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا لیکن وہ حماس کے ٹھکانوں کا پتہ لگانے میں ناکام رہے ۔ اب اسرائیل ایک بار پیچھے ہٹ گیا ہے اور سرحد پر مختصر فوج کے علاوہ باقی فوج واپس بلا لی ہے ۔ اسرائیل کا تو یہ کہنا ہے کہ رفح پر حملے کے لیے فوج کو تازہ دم کرنے کے لیے واپس بلایا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے ۔ اگر وہ رفح پر حملہ بھی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے پیچھے اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا کہ ان کی پیاس ابھی بجھی نہیں وہ مسلمانوں کا بہت زیادہ خون مزید بہانا چاہتے ہیں اور رفح کے پیچھے اس لیے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں کہ وہاں بیس لاکھ کے قریب فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں لہٰذا کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کرنا آسان ہو گا۔مگر جو بھی مقاصد ہوں فی الحال تو اسرائیل نے اپنی افواج کو واپس بلا لیا ہے ۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے فلسطینی اپنے اجڑے آشیانوں کی طرف واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں اور کچھ واپسی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کے آشیانوں کی یہ حالت ہے کہ گھر کے گھر تباہ ہو چکے ہیں، بڑی بڑی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیںجن خوبصورت گھرو ں میں کبھی وہ ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے اب ان کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں۔ جہاں وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ آباد تھے اب وہاں کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ جب وہ واپس لوٹیں گے تو ان کے گھرموجود نہیں ہوں گے انہیں کھلے آسمان تلے یا خیموں وغیرہ میں رہنا پڑے گا اور جب وہ گھروں کو لوٹیں گے تو کسی کا باپ نہیں ہو گا اور کسی کا بھائی وہاں موجود نہیں ہو گا، کسی کی ماں جنگ کی نذر ہو چکی ہو گی تو کسی کے بچے اسرائیلی درندگی کا شکار ہو کر ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکے ہوں گے۔ اب وہ ان کی یادیں لیے اپنے اجڑے گھروں کو دوبارہ بسانے کی کوشش کریں گے، ان کے گھر جس قدر تباہ ہو چکے ہیں انہیں اب واپس اپنی حالت پر لانا تو ممکن نہیں ہے لیکن جیسے تیسے وہ انہیں قابل رہائش بنا بھی لیں گے مگر اپنوں کی جدائی کے غم کو تو نہیں مٹایا جا سکتا۔ اولاد کو لگنے والا چھوٹا سا زخم بھی انسان سے برداشت نہیں ہو سکتا تو جن کے بچوں کو بموں کے ساتھ اڑا دیا گیا ہو ان کے دل پر کیا بیتتی ہو گی، کس کرب ناک اور اذیت ناک صورتحال سے ہمارے فلسطینی بھائی دوچار ہوئے ہیں یہ وہی جانتے ہیں جن پر گزری ہو۔
میں نے تو جب یہ خبر سنی کہ فلسطینیوں کی اجڑے آشیانوں کی طرف واپسی شروع ہو گئی تو ایک دم یہی خیال آیا کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس پہنچیں گے تو کس قدر رقت آمیز مناظر ہوں گے وہاں کے ۔کئی بچے جو اپنے والدین کی آغوش محبت میں پروان چڑھ رہے تھے اب وہ یتیم ہو چکے ہوں گے ، کئی والدین جو اپنے بچوں کی ننھی اٹھکیلیوں سے اپنے دل کو بہلاتے تھے اب وہ سونی گودیں لے کر گھروں کو پہنچیں گے، کئی بہن بھائیوں سے محروم تو کئی بہنیںشوہر سے محروم بیوہ بن کر لوٹیں گی۔ کسی قدر قیامت خیز مناظر گزر گئے ان چھ ماہ میں فلسطینیوں پر۔
اب مسلمانوں پر ایک اور ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر فلسطینیوں کی جنگ میں مدد نہیں کر سکے تو کم از کم جنگ کے بعد ہی ان کی مدد کر دیں وہ اس طرح کہ ان کے گھر بالکل تباہ ہو چکے ہیں اور ان کی معیشت اس سے بھی کہیں زیادہ تباہ حال ہے ان کے پاس اپنے گھربنانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا ، لہٰذا ان کی دل کھول کر مدد کریں اور گھربنانے میں انہیں ہر ممکن امداد فراہم کریں۔ ان کی معیشت کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کریں تاکہ ان کی زندگیوں میں کسی قدر خوشیاں واپس لائی جا سکیں۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر کاوش ہونی چاہیے لیکن بے حس حکمرانوں سے اس کی امید نہیں اور نہ ہی عوام کو ان پر بھروسہ ہے لہٰذا جو قا بل اعتبار تنظیمیں یہ کام کر رہی ہیں ان کے ساتھ خوب تعاون کریں تاکہ وہ گھروں کو واپس پہنچنے والے لٹے پٹے فلسطینیوں کی رہائش اور کھانے وغیرہ کا انتظام کر سکیں۔
0 30 4 minutes read