کالم

فرقہ واریت دہشت گردی کی ماں ہے

قارئین! پاکستان میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی نئی لہر جنم لے رہی ہے جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے لیکن دہشت گرد آتے کہاں سے ہیں؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اگر دہشت گردوں کی فرض کرتے ہیں کہ ایک ہی ماں ہے تو وہ فرقہ واریت ہے۔ اگر فرقہ واریت کو ملک سے ختم کر دیا جائے تو دہشت گردی کے خاتمے کا قوی امکان ہے۔اگر پاکستان کو محل وقوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ جنوبی ایشیاء کا اہم ترین حصہ ہے۔ایک طرف روس پھر بھارت،افغانستان اور امریکہ اس اعتبار سے ضروری ہے کہ ان تمام ممالک کی پہنچ اس تک ہو۔یوں یہ خطہ ایشیاء کے اہم ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔اس کے دشمن ممالک جب اور کچھ نہیں بن پڑتا تو یہاں دہشت گردی کی چنگاری بذریعہ مذہبی اور لسانی فرقہ واریت کے بڑھکا دیتے ہیں۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے جتنا نقصان پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے اٹھانا پڑا تاریخ لکھنے والا مورخ مجبور ہو جائے گا کہ اتنا زیادہ نقصان اور کسی بھی ملک کو نہیں ہوا۔
اسی لئے یہ کہنا کہ اگر فرقہ واریت کو ملک سے ختم کر دیا جائے تو دہشت گردی خود بخود ختم ہو جائے گی،جب دہشت گردی کو جنم دینے والی فرقہ واریت ہی نہیں رہے گی تو پھر دہشت گردی اور دہشت گرد کہاں سے آئیں گے؟پاکستان میں قومی ایکشن پلان تنازعوں میں بٹا ہوا ہے۔اس وجہ سے کوئی ایسی واضح حکمت عملی مرتب نہیں ہو رہی جس کے ذریعے فرقہ واریت کے فروغ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا کوئی حل نکالا جا سکے۔یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ دہشت گردوں کو ہم نے 99فیصد ختم کر دیا ہے لیکن ابھی تک ہم انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کو ایک فیصد بھی ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔اس لئے یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہو گا کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی لازم و ملزوم ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ مذہبی اعتبار سے فرقے 3ہی ہیں یعنی شیعہ،سنی اور خوارج۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے مذہبی مفکرین نے ان کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔اب دیو بند،بریلوی،اہلحدیث اور منکرین حدیث کی اصطلاحات عام ہیں۔ستم در ستم یہ کہ حکمرانوں نے ان فرقوں کو ختم کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اسی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ہر جگہ جلسے ،جلوس،مار کٹائی اور مسلمان مسلمانوں کے خون سے ہاتھ لہو آلودہ کر رہے ہیں۔اب تو جدید ترین طریقوں سے دہشت گردی کا ,,ہنر،، آزمایا جا رہا ہے۔جس سے نہ صرف لوگ اسلام جیسے پر امن دین سے متنفر ہو رہے ہیں بالکہ یوں کہئے کہ الحاد کی جانب رخ کر رہے ہیں۔
عباسی حکمران کہتے تھے جو ہماری اطاعت نہیں کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی،دوسری جانب امام مالک نے فتویٰ دیا کہ جبری طلاق قبول نہیں ہو سکتی۔ان کے اس موقف کے باعث انہیں ڈرایا دھمکایا گیا ،لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے جس کی بنیاد پر انہیں سخت ترین سزا دی گئی،یوں عباسی حکمرانوں کا نام تو تاریخ میں دھندلا پڑ گیا لیکن امام صاحب تا قیامت اپنے درست فیصلے کی وجہ سے زندہ و جاوید قرار دئیے گئے۔
جوں جوں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ ختم ہوا تو فرقہ واریت میں بھی کمی آ گئی اور مذہبی رہنماء تحقیق اور تجدید کی جانب بڑھتے گئے، اس سلسلہ میں علامہ محمد اقبال کے وہ خطبے جن میں انہوں نے review of Islamic thoughtپر زور دیا،وہ ایسا کام تھا کہ اب مسلمانوں نے پرانی فقہ کو چھوڑ کر جدید تحقیق شروع کر دی۔اس وجہ سے علامہ کو روایتی ملائوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے بعد امام حمید الدین فراہی نے مکتبہ فراہی کی بنیاد رکھ کر فرقہ بندی کے خاتمے کی کوشش کی،ان کے ساتھ ساتھ مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی نے اسلام کی نئی طرح ڈالی۔مولانا امین اصلاحی نے مکتبہ فراہی کو جلا بخشی اور موجودہ دور میں فرقہ پرستی کے خاتمے اور اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لئے جو کام جاوید احمد غامدی کر رہے ہیں اس کا ذکر نہ کرنا قلم و قرطا س کے خلاف ہو گا۔ انہوں نے فرقہ بندی کو سرے سے ختم کرنے کی کاوش کی ہے۔لیکن جب وہ اسلام کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کر رہے ہیں تو سارے کے سارے مذہبی پیشوا ان کے خلاف اعتراضات کی ایک لمبی چوڑی فہرست لے کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔
قارئین! یاد رکھئے گا کہ جب تک اسلام کی اصل روح کے ساتھ اس کو نافذالعمل نہیں کیا جائے گا تو پاکستان کی گلیوں،محلوں اور شہروں میں خون کی نہریں بہتی رہیں گی،اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جو کوئی بھی اسلام کے بارے میں جدید تحقیقات کرتا ہے اسے کرنے دیجئے،کیونکہ نعوذ باللہ اسلام میں کوئی خامی نہیں اس کے فہم میں خامیاں ہیں جس کی وجہ سے مسلمان آج بھی بے سرو سامانی کے عالم میں قرآن مجید کے غلط مفہوم نکال کر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے بلا وجہ جگہ جگہ مارے جا رہے ہیں۔اس کی مثال افغانستان،شام،عراق اور فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کا نام بھی آتا ہے۔ آپ خود سوچئے کہ ان ممالک نے عالمی قوتوں سے جنگ کر کہ کچھ حاصل کیا یا ہمیشہ کھویا۔اللہ سے دعا ہے کہ فرقہ واریت جو دہشت گردی کا اصل سبب ہے اس کا خاتمہ ممکن ہو اور ہم بھی اس دہشت گردی کی لعنت اور اس کا جو لیبل ہمارے گلے میں لٹکا ہوا ہے ،اس سے جان چھڑا سکیں،ورنہ ہم یوں ہی مظلوم اور محکوم رہ کر دنیا پر حکومت کے خواب دیکھتے رہیں گے۔ اللہ ہمیں دین کا درست اور صحیح صحیح فہم عطا کرے۔آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button