کالم

صدقہ فطرکی ادائیگی اور اہمیت

رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے بہار لے کر آتا ہے۔ مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں، اللہ کی رضا کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہوئے روزے رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کو معمول بنا لیتے ہیں اسی طرح جن نیک بندوں کو اللہ توفیق سے نوازے وہ اعتکاف کی بھی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ جب مسلمان اپنی نظروں کی حفاظت کرتا ہے،جھوٹ، غیبت، چغلی، حسد، بغض، کینہ اور اس طرح کے دیگر گناہوں سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اندر ایمان کی چاشنی اور شادابی پھر سے تازہ کر دیتا ہے پھر وہ مسلمان تقویٰ اور پرہیز گاری کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کورمضان المبارک میں ایک ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا اس لئے موقع دیتاہے کہ وہ تمام گناہ جو انسان کی عادت بن چکے ہوتے ہیں اور انسان انہیں گناہ ہی نہیں سمجھتا اللہ تعالیٰ انہیں بھی ختم کروانا چاہتا ہے اور اپنے بندوں کو گناہوں سے بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔
رمضان المبارک میں روزہ،عبادات،اعتکاف کے فرائض کے ساتھ ایک اہم فریضہ صدقہ فطر ہے جس کا ادا کرنا واجب ہے صدقہ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ عیدالفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖنے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا ہے، لہٰذا جو نماز عید سے قبل ادا کرے، اس کا صدقہ مقبول ہوا اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے (نہ کہ واجب صدقہ) یعنی اسے صدقہ فطر نہیں کہا جا سکتا (ابن ماجہ کتاب الزکوٰة باب صدقة الفطر) اللہ تعالیٰ قرآن پاک میںکہتے ہیں کہ ان (امیروں) کے مال میں سے سائل اور محروموں کا حق ہے اس لئے یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ غرباء اور مساکین کو صدقہ فطر ادا کرنا ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ نبی اکرم ۖ کی حدیث مبارکہ ہے کہ” صدقة الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے۔” (بحوالہ: صحیح بخاری) ۔فطرانہ ادا کرنے کے وقت سے متعلق نبی اکرم ۖ کی ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ” صدقہ فطر(فطرانہ)لوگوں کے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔” (بحوالہ : بخاری ، مسلم)سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ” لوگ یہ صدقہ عید سے ایک دو روز پہلے دے دیاکرتے تھے ۔”( بخاری )۔ صدقہ فطر کا ابتدائی وقت عید سے چند روز پہلے اور آخری وقت عید کی نماز سے پہلے ہے ( موطا امام مالک )۔
صدقہ فطر اورفدیے کی کم ازکم مقدار چکی کا آٹا 2کلو گرام کی قیمت فی کس ہے ،گندم کے حساب سے یہ فطرہ کی کم سے کم رقم ہے اور جو، کھجور اور کشمش کے اعتبار سے یہی اشیاء چارکلو کی بازار میں جو قیمت ہے، وہ صدقہ فطر کی مقدار ہے جن بندوں کو اللہ تعالیٰ نے رزق میں کشادگی عطاکی ہے اور وافر دولت سے نوازاہے انھیں چاہئے کہ وہ اپنی مالی حیثیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو َ یاکھجور یا کشمش یا پنیر کے حساب سے فطرہ ، فدیہ اور کفارات اداکریں تاکہ نعمت مال کا تشکر بھی ہو اور نادار طبقات کی بھی ضروریات پوری ہوں۔یادرکھیں اللہ کی راہ میں ہمیشہ عمدہ چیز دینی چاہیے اور جو لوگ کم استطاعت رکھتے ہیںوہ 2 کلو چکی کے آٹے کی قیمت کے مطابق فطرانہ ادا کرسکتے ہیں۔اللہ کے نیک بندوں فطرانہ ادا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے اد ا کردیناچاہئے تاکہ مستحق لوگوں تک بروقت پہنچ سکے اور وہ بھی عید کی حقیقی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button