کالم

عیدالفطر مسلمانوں کا عظیم تہوار

دنیاکے تمام مسلمان خواہ وہ کسی بھی خطے میں رہتے ہوں۔ اجتماعی خوشی عیدکادن عقیدت واحترام سے مناتے ہیں کیوں کہ عید الفطرمسلمانوں کاایک مقدس اور عظیم تہوارہے۔عید کی اجتماعی شان تو اپنی جگہ لیکن ایک توعید ہمارے اندرقلبی اور روحانی خوشی پیداکرتی ہے اوردوسری طرف مسلمانوں کے تعلقات،محبت اورجذبہء ا یثارمیں اضافہ کرتی ہے۔ عیدالفطرخوشیوں بھرا دن ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے حضورتشکرکادن بھی ہے۔ اسی لئے روز ِعیدکی ابتدخصوصی نمازعیدسے ہوتی ہے۔ جشن عیدپرعبادت کارنگ نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ رنگ برنگے لباس،لہلاتے ہوئے آنچل،چہروں پر مسکراہٹیں،آنکھوں میں روشنی کی پھوٹتی ہوئی کرنیں، لڑکیوں اورخواتین کے مہندی سے سجے ہوئے ہاتھوں میں چوڑیوں کی کھنک،بچوں کی شرارتیں اورقہقہے، نوجوانوں کی سلام اورآداب کی صدائیں،بڑے بوڑھوں کی سبھی کیلئے دعائیں،باورچی خانوں سے طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوئیں، گھرسے باہرجگہ جگہ میلوں کادلفریب سماں، قسم قسم کے سجے ہوئے سٹال،مختلف کھلونے،پہلے سے کہیں زیادہ صاف اوربھری ہوئی مٹھائی کی دوکانیں،دہی بھلے، جملہ عروسی کی طرح سجے ہوئے پھل فروٹ کے سٹال،قصابوں کی دوکانوں کے اردگردچونے کی مددسے گل فشانی غرض ہرسورونق ہوتی ہے۔ زندگی محو رقص نظر آتی ہے۔ ان سب کواگریکجاکریں توعید کی قوسِ قزح بنتی ہے۔ عیدماہِ رمضان کی آزمائشوں سے گزرنے والوں اورعبادت گزاروں کیلئے ایک تحفہ اورعبادات کے تشکر کے اظہارکی ایک صورت ہے۔ ماہِ صیام اورجشن نزول قرآن حکیم کے بخیروخوبی اختتام پردنیابھرکے مسلمان اللہ تعالی کے حضورسجدہ ء شکربجالاتے ہیں۔ دنیامیں جہاں کہیں بھی مسلمان آبادہیں۔ وہ حسبِ توفیق صاف ستھرے کپڑے پہنے،خوشبو لگائے نمازعیداداکرتے ہیں۔نمازکی ادائیگی کے بعدایک دوسرے کے گلے ملتے اور شکایات دورکرتے نظر آتے ہیں،خوشیاں بانٹتے ہوئے عیدکی مبارکبادیں پیش کرتے ہیں۔عیدکے دن گھرمیں اچھے اچھے پکوان پکانا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا اورہمسائیوں وعزیزوں کے گھروں میں کھانابھیج کر خوشی محسوس کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتاہے۔ نمازعیدوہ واحدنمازہے جسکااہتمام کئی دن پہلے سے ہی شروع ہوجاتاہے۔ کئی روزپہلے کپڑے سلوائے جاتے ہیں۔نئے جوتے خریدے جاتے ہیں۔ اگرجوتے پرانے ہیں توخوب پالش کرکے انہیں چمکایاجاتاہے۔ بروزِعیدہرشخص کا صبح سویرے اٹھنا،مسواک کرنا،غسل کرنااورصاف ستھرے کپڑے پہن کرخوشبولگاتے ہیں۔نمازکی ادائیگی سے قبل چندکھجوریں یا کوئی میٹھی چیزیں کھائی جاتی ہیں۔ یہ تمام طریقے مسنون ہیں۔ عیدکی خوشیوں کے رنگ اگرچہ روزِاول کی طرح سے تقریباوہی ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بعض طورطریقے بدل چکے ہیں۔پہلے زمانے میں روزوں کے آخری دن مغرب ہوتے ہی کھلے میدانوں اورگھروں کی چھتوں وغیرہ پربڑے بوڑھوں،جوانوں،بچوں کاہجوم ہوتاتھا،ہرنظرآسمان پرٹکی ہوتی تھی۔مردو خواتین غرض ہرشخص عیدکاچاندخوددیکھنااپنافرض سمجھتاتھا۔ چاندنظر آتے ہی ہرسوشورمچ جاتا، نقارے،گولے اورسائرن کی آوازیں ہرکسی کوچاندکی نویددیتی تھیں۔ ایک دوسرے کوچاندکی مبارک باددی جاتیں۔ بچوں کااشتیاق اورجوش دیکھ کربڑے بھی خوش ہواکرتے تھے۔ ملک بھرمیں لاکھوں افراداپنے دوستوں اورعزیزوں کوایک سے ایک خوبصورت عیدکارڈبھیج کربڑی خوشی محسوس کرتے تھے۔ عیدکارڈمحبت کاایک بہترین اورخوبصورت ذریعہ تھا۔ بعض امرا عیدکارڈ کی بجائے عیدکے روزٹیلی گراف کے ذریعے عیدمبارک کاپیغام بھیجتے تھے۔ عیدسے کئی روزقبل عیدکارڈبھیجنے کی پرانی روایت تقریباختم ہوچکی ہے۔ اب اسکی جگہ موبائلSMS،واٹس ایپ نے لے لی ہے۔ عیدکے روزمحض چند روپوں میں سینکڑوں افرادکوعیدمبارک کے میسج بھیج کرجان چھڑالی ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے سو کوئی چاندنہیں دیکھتا۔ٹی وی یاریڈیوپر نظریں اور کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ نمازعید،عیدگاہ میں ہی جاکراداکی جاتی ہے۔ عیدگاہ جانے کے لئے جس راستے سے جائیں واپسی کیلئے دوسراراستہ اختیار کریں۔فطرانہ کی ادائیگی نمازعیدسے پہلے ضرورکی جائے۔ بہرحال عیدمسلمانوں کاسب سے خوبصورت تہوارہے عیدخوشیوں کانام ہے اپنی بساط کے مطابق عیددھوم دھام سے منائیں۔ دوستوں کوتحفے تحائف دیں اور ان سے خوش دلی سے ملاقات کریں۔تاہم اس پرمسرت موقع پرہم اپنے اردگردموجودایسے لوگوں خاص طورپرغریبوں اور یتیم بچوں کوعیدکی خوشیوں میں ضرور شامل کریں اوراپنے سر پر قناعت کا تاج رکھیں۔
ایک دفعہ عید کے دن نبی کریم حضرت محمدۖمسجد جارہے تھے کہ راستے میں کچھ ایسے بچوں کوکھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔بچوں سے سلام دعاکے بعدآپۖآگے تشریف لے گئے تووہاں ایک بچے کواداس بیٹھے دیکھا۔آپ ۖنے اس کے قریب جا کرپوچھا تم کیوں اداس اور پریشان ہو؟اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔اے اللہ تعالی کے رسول ۖمیں یتیم ہوں میراباپ نہیں ہے جومیرے لئے نئے کپڑے خریدتا۔میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلاکر نئے کپڑے پہنادیتی۔ اس لئے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔ آپ ۖ اسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ سے فرمایا اس بچے کو نہلا دواتنے میں آپۖنے اپنی چادر مبارک کے دو ٹکڑے کردیئے۔چادر کا ایک ٹکڑا شلوار کی طرح باندھ دیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیاگیا۔بچہ جب نہلاکر نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو آپ ۖنے بچے سے فرمایا آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گابلکہ میرے کندھوں پرسوار ہوکر جائے گا۔آپ ۖنے یتیم بچے کو اپنے
کندھوں پر سوار کرلیا اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں وہ مقام آیا جہاں بچے نئے کپڑے پہنے کھیل رہے تھے جب ان بچوں نے دیکھا وہ یتیم بچہ جو اکیلا اداس بیٹھا تھا۔ رحمت دوعالم حضرت محمدۖکے کندھوں سوار ہے تو کچھ کے دلوں میں خیال گزرا کہ کاش وہ بھی یتیم ہوتے تو آج نبی کریم ۖکے کندھوں کی سواری کرتے۔ یہاں تک کہ سرکار دوعالم ۖنے اس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا۔اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالی اس کے نامہ اعمال میں اتنی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی نبی کریم ۖکی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے۔ تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں بروز قیامت آپ ۖکے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عید الفطر کے دن غربو مساکین کی امداد و تعاون کرنا، بیماروں کی مزاج پرسی کرنا نہیں بھولنا چاہیئے یہ ہمارااخلاقی،قومی اورمذہبی فریضہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button