کالم

امریکی رکن اسمبلی کی غزہ کے خلاف ہرزہ سرائی

چند روز قبل ایک امریکی رکن پارلیمنٹ ٹم والبرگ نے غزہ کے معصوم مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے غزہ پر ناگا ساکی اور ہیروشیما کی طرح ایٹم بم گرانے کی تجویز پیش کی ہے ۔ ان سے کسی نے یہ سوال کیا کہ امریکا غزہ مین امداد فراہم کرنے کے لیے عارضی بندرگاہ پر کیوں اپنے ڈالر خرچ کر رہا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ صدر جوبائیڈن کا فیصلہ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں غزہ کی امداد کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے مزید دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اندر کے تعصب کو اگلتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ناگا ساکی اور ہیروشیما کی طر ح ایٹمی بم گرا دینا چاہیے تاکہ اسے جلد ختم کیا جا سکے۔
ان کے مبنی بر تعصب بیانات پر جب شدید تنقید اور مذمت ہوئی اور ان کے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا تو انہوں نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس معاملے کو مزید متنازع بنا دیا کہ وہ صرف غزہ ہی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرین روس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے تاکہ روس کو بھی جلد شکست دی جا سکے۔پھر انہوں نے کہا کہ ایٹم بم کا لفظ بطور استعارا استعمال کیا ہے جس میں دونوں ممالک اسرائیل اور یوکرین کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ایٹم بم کا استعمال کرنے سے یہ جنگ جلد جیتی جا سکے گی یوں امریکی فوجیوں کم سے کم نقصان ہو گا۔ آگے چل کر موصوف نے ایک اور نہایت عقلمندی کی بات کرنے کی کوشش کی کہ یہ دونوں جنگیں جتنی جلدی ختم ہوں گی اتنی ہی معصوم جانیں کم ضائع ہوں گی۔
اب کوئی اس سٹھیائے ہوئے بڈھے سے یہ پوچھے کہ اپنے تعصب میں اتنے ہی اندھے ہو چکے ہو کہ آپ کو اتنی عقل بھی نہیں رہی کہ ایک طرف آپ ایٹمی حملے کا مطالبہ
کر رہے ہو اور اس کی وجہ یہ بتا رہے ہو کہ معصوم لوگوں کی جانیں کم ضائع ہوں گی۔ کیا عجیب فلسفہ پیش کیا ہے کہ جب ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو کیا وہ مخصوص لوگوں کو نشانہ بناتا ہے یا لاکھوں معصوم لوگوں کی اس میں جانیں چلی جاتی ہیں؟ یہ لوگ نام نہاد روشن خیال ہیں جن میں تاریک خیالی کی انتہا ہے ، یہ لوگ خود کو سیکولر تو قرار دیتے ہیں لیکن ان کے رویے بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک خاص مذہب کے پیروکار ہیں اور دیگر مذاہب کے افراد کو کبھی قبول نہیں کر سکتے اور ان کے خلاف دلوں میں کس قدر بغض رکھتے ہیں۔
یہ لوگ تو خود کو جانوروں کے حقوق کے بھی محافظ
گردانتے ہیں جبکہ انسانی حقوق کے بارے میں کی اگر ان کے لیکچر اور باتیں سنی جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی انسان کی جان کو بچانے کے لیے ہی لوگ اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن ان کا کردار اس سے کہیں مختلف ہے ، پہلے تو یہ جان لیں کہ وہ انسان ہی انہیں مانتے ہیں جو ان کے ہم مذہب ہیںاس کے علاوہ کسی کو وہ عملاً انسان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں تو ان کا رویہ نہایت مختلف ہے مسلمان ان کے لیے کچھ بھی کر لیں وہ ان سے کبھی خوش نہیں ہونے والے ۔ یہی بات اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمائی ہے، ترجمہ: ”اور یہود و عیسائی ہر گز آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کر لیں”(البقرة : 120)۔ یہ لوگ دیگر مذاہب کو تسلیم کر لیں گے جیسے یہودی، عیسائی اور ہندو وغیرہ آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہوتے اور نہ ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے جو فرما دیاکہ یہ لوگ کبھی تمہارے نہیں ہو سکتے ہاں اگر تم ان کا دین قبول کر لو تب یہ تمہیں قبول کر لیں گے مگر ایک مسلمان کے لیے یہ ناممکن ہے ۔
اب رکن پارلیمنٹ ٹم والبرگ نے غزہ پر ایٹمی حملے کا مطالبہ کیا تو کسی نے سرکاری طور پر اس کی مذمت نہیں کی ،
نہ کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے انہیں منہ توڑ جواب دیا ہے بلکہ یہاں تو ” ایٹم برائے امن ” کا راگ الاپنے والوں کے منہ بھی بند ہیںکیونکہ کہا جو کسی امریکی نے ہے اور امریکہ کے لیے تو سب کچھ جائز ہے کوئی دوسرا ملک اپنی حفاظت کے لیے بھی ایٹم بم نہیں بنا سکتا جبکہ امریکہ ایٹمی حملہ بھی کر دے تو وہ جائز ہے ۔ تاریخ میں اب تک فقط ایک ایٹمی حملہ ہوا ہے جو امریکہ نے کیا ہے جسے امریکہ اپنا حق سمجھتا ہے جبکہ دیگر ممالک کے لیے ایٹمی تجربہ کرنے پر بھی پابندی ہے ۔ اب اگر یہی بیان کسی اور ملک سے دیا گیا ہوتا امریکیوں کو انسانیت یاد آ جاتی ۔ انہیں یہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ غزہ میں کتنے معصوم لوگ شہید ہو رہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں ، مردوں ، بیماروں ، زخمیوں سب کو بلا تفریق قتل کیا جا رہا ہے ۔ یا تو فقط جنگجوؤں کو قتل کیا جا رہا ہوتا تب تو کچھ سمجھ میں آنے والی بات تھی لیکن جب امریکی وحشی پن پر اترتے ہیں تو ہیرو شیما ، ناگا ساکی کی طرح معصوم و گناہ گار کی تفریق کے بغیر لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب رکن پارلیمنٹ نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ایٹمی حملے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اس کے خلاف امریکی حکام کی طرف سے کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا جو ان کی اس مطالبے کی حمایت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور امریکیوں کی روشن خیالی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button