کالم

مایوسی نہیں پھیلانی چاہیے

مایوسی نہیں پھیلانی چاہیے مگرحقیقت ہے کہ بہت ہی بدترین دورشروع ہونے والا ہے۔مہنگائی کا خوفناک طوفان چندہی روز میں شروع ہو جائے گا۔اتنی مہنگائی کا امکان ہے کہ موجودہ مہنگائی،مہنگا محسوس ہی نہیں ہوگی.حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کچھ رقم دے کرمطمئن ہے کہ غربت میں کمی ہو رہی ہے۔یہ امداد بھی ہر پاکستانی کو نہیں مل رہی ہے،بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ حقداروں کی بجائے غیر حقداروں کو مل رہی ہے۔یہ تھوڑی سی مدد کافی ذلیل و خوار ہونے کے بعد ملتی ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ملنے والی امدادخواتین کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔کئی کئی گھنٹے لائنوں میں لگ کرملتی ہے،بعض اوقات دو تین دن کے بعد ملتی ہے۔گرمی اور رمضان کے موسم میں خواتین اچھی خاصی اذیت جھیلتی ہیں۔اس کے علاوہ ریٹیلرزکٹوتی بھی کر لیتے ہیں۔بات ہو رہی تھی مہنگائی کی،کیونکہ مہنگائی نے پچھلے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دینے ہیں۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافے کا امکان ہے۔ان حالات میں کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آگے کیا ہوگا؟یہ تو ابھی اس حکومت کی شروعات ہیں،بعدمیں اس سے بھی زیادہ کچھ دیکھنا پڑے گا۔حکومت کے پاس کوئی ایسا پایدار حل نہیں جس سیحالات قابو میں آجائیں یا مہنگا کنٹرول میں آجائے۔حکومت اور بھاری کابینہ پاکستانی قوم کو بہت ہی مہنگی پڑ رہی ہے۔شاہانہ اخراجات کنٹرول میں نہیں ہو رہے،بلکہ قرضے پہ قرضہ لیاجا رہاہے۔حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ہر چیز گروی رکھ دینی ہے،چاہے کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔
ایک عام پاکستانی جب مارکیٹ میں جاتا ہے تو اس کوحیرت کا جھٹکا لگتا ہے کیونکہ وہ چیزجوخرید رہا ہوتا ہے،ایک دن پہلے اوردوسرے دن اشیا کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔کچھ توحکومت کنٹرول نہیں کر رہی،دوسرے دکانداروں نے بھی اپنی من مانی قیمتیں لگائی ہوتی ہیں۔گوشت لینا ہو،سبزی لینی ہو یا کوئی اور چیز،ہر چیز کے ریٹ دن دونی اور رات چگنی کے حساب سے بڑھ رہے ہیں۔گوشت کی قیمتیں اتنی اونچا تک پہنچ چکی ہیں کہ عام آدمی خرید نہیں سکتا۔گوشت تو چھوڑیے عام سبزی بھی غریب کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ان حالات میں بچوں کو سکول بھیجنے سے والدین قاصر ہو چکے ہیں۔حکومت صرف اس بات سے پریشان ہے کہ قرضہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور حاصل ہونے کے بعدکس طرح ٹھکانے لگایا جائے؟اس وقت عام آدمی کی بے بسی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے،جب وہ خالی ہاتھ یامعمولی سی اشیائے خوردونوش کی مقدار گھر لاتا ہے۔
حکومت بے تحاشہ ٹیکسزبڑھا رہی ہے۔بعض ٹیکسز تو ایسے ہوتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتے۔مثال کے طور پر بجلی کی بل پربیتحاشہ ٹیکسزنظرآرہے ہوتے ہیں۔ٹی وی فیس تقریبا ہر بل پرنظرآرہی ہوتی ہے،بلکہ مسجد کیبلوں پر بھی ٹی وی فیس نظرآجاتی ہے۔اس کے علاوہ کئی قسم کے ٹیکسزبھی نظرآرہے ہوتے ہیں۔پاکستانی عوام کوایسے قرض بھی ادا کرنے پڑتے ہیں،جو ان کے علم میں بھی نہیں ہوتے یا خواب و خیال میں بھی نہیں آتے۔کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام ایسی آشفتہ سربن چکی ہیجو وہ بھی قرض ادا کرنے پر مجبورہے،جو قرض کتوں اور گھوڑوں پر خرچ کیے جاتے ہیں یاعیاشیوں کی نظرہوجاتے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ سمگلنگ بھی ہو رہی ہے،جس کی وجہ سیملک کی مصنوعات کی ڈیمانڈ کم ہو رہی ہے۔سمگلنگ پر بھی قابو پانا ہوگا،کیونکہ یہ ایسا ناسور ہیجو ملک کو گھن کی طرح کھارہاہے۔
پاکستان کا خزانہ خالی ہو چکا ہے۔خزانہ خالی ہونے کی بات تقریبا ہر پاکستانی جان چکا ہے اور ملک کوچلانے کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔رقم بھی ڈالروں میں ضرورت ہے۔حکومت کوبہادرانہ قدم اٹھانا ہوگا اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت شروع کر دینی ہوگی۔تجارت تو اب بھی ہو رہی ہے،مگر ان ممالک کے ساتھ جو پاکستان کیلیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔پاکستان کو ایسے ممالک کے ساتھ تجارت شروع کر دینی چاہیے جو اس کے مفاد میں ہو۔قوم چاہتی ہیکہ ملک کی شان و شوکت بڑھے۔ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ہماری مسلسل بیعزتی ہو رہی ہے۔بطور مسلمان بھی ہماراامیج دنیا میں متاثر ہو رہا ہے۔ان حالات سے کس طرح نکلا جا سکتا ہے؟یہ معلوم کرناضروری ہے۔ملک کیحالات دیکھ کر اب تو یہ بھی ڈر لگنیلگاہے کہ کہیں ایٹمی اثاثے کسی کے ہاتھ میں نہ آجائیں۔ملک کی حالت سدھارنے کے لییایٹمی اثاثہ جات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
محب وطن پاکستانی یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ آئندہ چند دنوں کے بعدحالات کس طرح ہوں گے؟ایک عام آدمی کس طرح حالات کا مقابلہ کر سکے گا؟غربت اور بیروزگاری نیجہاں بھوک میں اضافہ کیا ہے،وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔چوری چکاریاں سمیت ڈکیتیاں بڑھ چکی ہیں(یہاں پیشہ ورچوروں یا ڈاکوں کی بات نہیں ہو رہی ہے)۔پاکستان کا کوئی کونا محفوظ نہیں جہاں عوامی فرسٹریشن میں اضافہ نہ ہو رہا ہو۔سندھ ہو یا بلوچستان،گلگت بلتستان یا دوسرے صوبہ جات ہوں،پورا پاکستان پریشان حالی کا شکار ہے،یہ اور بات ہیکہ قلیل تعداد مستفیدہو رہی ہے۔حالات جس طرح بگڑ رہے ہیں،اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ حالات انارکی کی طرف نہ بڑھ جائیں۔عوامی مزاحمت بھی شروع ہو سکتی ہے،جس کو کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔مایوسی نہیں پھیلانی چاہیے مگر حقیقت ہے کہ بہت ہی بدترین دور شروع ہونے والا ہے۔مہنگائی کا خوفناک طوفان چندہی روز میں شروع ہو جائے گا۔اتنی مہنگا کاامکان ہے کہ موجودہ مہنگا،مہنگا ہی محسوس نہیں ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button