کالم

غزہ کے مسلمانوں کی مدد کیجیے،ایسانہ ہوکہ دیرہو جائے

تصور کیجئے کہ ایک شخص اپنے گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے کہ اچانک کچھ افراد اس کے گھر میں داخل ہو جاتے ہیں.داخل ہونے والے افراد کو نہ تو اس بات کی پرواہ ہے کہ کسی کے گھر کا چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہورہا ہے اور نہ اس بات کا خیال ہے کہ وہ کسی کی اجازت کے بغیر داخل ہو رہے ہیں.نہ ان کو کسی قانون کا خوف اور ڈر ہے.وہ اندر داخل ہو جاتے ہیں اور فائرنگ شروع کر دیتے ہیں.گھر کے کچھ افراد قتل ہو جاتے ہیں.وہ فرد بیچارہ اور اس کے اہل خانہ میں سیجوزندہ بچے ہیں ،دہشت اور پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں.آنیوالیافراداس فرد کو جو گھر کا سربراہ بھی ہے ،گرفتار کر کے لے جاتے ہیں اور تشدد بھی اس پرکیا جاتا ہے.ایک اور جگہ پر کچھ خواتین کو پکڑلیا جاتا ہے،ان کا ریپ کرنے کے علاوہ قید بھی کر دیا جاتا ہے.ان عزت ماب خواتین کو نہ تو کسی عدالت میں پیش کیاجاتا ہے اور نہ کسی قانون اور ضابطے کا خیال رکھا جاتا ہے۔کسی اور جگہ پر کچھ لوگ عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کہ اچانک ان پربمباری کر دی جاتی ہے.وہ لمحوں میں جیتھڑوں میں تقسیم ہو کرناقابل شناخت بن جاتے ہیں.ایک اور جگہ کا تصور کیجئے جہاں چھوٹا سا بچہ سو رہا ہواور اچانک اس کو گولیاں مار دی جاتی ہیں,وہ معصوم آنکھ کھولے بغیر جنت میں جا پہنچتا ہیحالانکہ وہ بچہ ابھی تک زندگی اور موت کا تصور سمجھنے سے بھی قاصر ہے.ایک اور جگہ کا تصور کیجیے,جہاں کچھ بچے کسی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اوران کے سکول پر بمباری کر دی جاتی ہے,اس سکول کے بچے اور کتابیں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں .کتنا دردناک منظر ہے کہ ایک بے گناہ یابیگناہوں کو اس وجہ سیشہید کر دیاجاتا ہے کہ وہ فلسطینی مسلمان ہیں.کسی مسلمان عورت کو جبر کا نشانہ بنایا دیا جاتا ہے کہ وہ فلسطینی ہے.معصوم بچوں کو چیتھڑوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے بچے ہیں.اوپر بیان کیے گئے دل خراش مناظر میں سے چند مناظر کی عکاسی کی گئی ہے.اس سے زیادہ ظلم ہو رہا ہے.اتنے مظالم ہو رہے ہیں کہ انسانیت بھی منہ چھپانیپر مجبور ہے.ذرا تصور کیجئے کہ ایک باپ کاجوایک یازیادہ بیٹیاس کیساتھ بیٹھے ہوں اور وہ بیٹیبمباری کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیں۔وہ ٹکڑےآپس میں مکس ہو جائیں اور والدیہ بھی سمجھنے سے قاصر ہو کہ کون سا ٹکڑا کس
بیٹے کا ہے .وہ شاید جوتوں سے شناخت کرنے کی کوشش کرے تو اس کو پتہ ہی نہ چلے کہ جوتے کدھر گئے ہیں.شایدوہ اس بات سے شناخت کرنے کی کوشش کرے کہ کس بچے نے کون سے کپڑے پہنے ہوئے تھے ،مگر وہ کپڑوں کے چندچیتھڑوں سے اندازہ نہ لگا سکے کہ کپڑے کا چیتھڑا کس بچے کا ہے؟ایک بھائی کے سامنے اس کی بہن کی عزت تار تار کی جارہی ہویا ایک شوہر کے سامنے اس کی معصوم بیوی درندوں کی درندگی کا شکار ہو کر چیخ رہی ہو،وہ بھائی اور شوہر بے بسی کی تصویر بناموت کی آرزو کر رہا ہو.یہ ظلم اور درندگی فلسطینی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے.کھانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں بچا بلکہ گھاس اور پتے بھی ختم ہو چکے ہیں اورباقی بمباری کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکے ہیں .فلسطین کے مسلمانوں کو گھاس اور پتے بھی نہیں مل رہے کہ وہ اپنے پیٹ بھرسکیں .فلسطین میں تاریخ کا بدترین جرم ہو رہا ہے.مغرب میں شاید جانوروں اور درندوں کیحقوق کاخیال رکھاجاتا ہے مگر مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی کسی کو پرواہ ہی نہیں. نہ تو کسی کو یہ پرواہ ہے کہ بچے کیوں شہید کیے جا رہے ہیں؟ان بچوں کو کیا قصور ہے جو کسی مدرسے یا سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟
فلسطین کے مسلمان اس لیے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور بدقسمتی سے کمزور بھی ہیں.مسلمان ہونا ان کا جرم بن چکا ہے.فلسطین کی وجہ سے ہر صاف دل اور انصاف پسندانسان رنجیدہ ہے.مغرب میں بھی چند انصاف پسند افراد احتجاج بھی کر رہے ہیں اور ظلم پرکڑھ بھی رہے ہیں مگر ان کی آواز کوئی سنتا ہی نہیں.اسلامی ممالک کی عوام چیخ رہی ہیمگر حکمران خواب غفلت کا شکار ہو کر سو رہے ہیں.امریکہ سمیت کئی ممالک اسرائیل کی ہر قسم کی مدد کر رہے ہیں.اسلحہ ،نقدی اور خوراک کی صورت میں ہر قسم کی مدد کر رہے ہیں.جدید سے جدید اسلحہ ان کو دیا جا رہا ہیتاکہ مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹ جائے.مسلمانوں سے زمینیں چھینی جا رہی ہیں اور ان کو اپنی ہی گھروں سے نکال کر بھگایاجا رہا ہے،فلسطینی مسلمان پریشان ہیں کہ کدھر جائیں؟ان کو کوئی جائے پناہ ہی نہیں مل رہی.غزہ کی چھوٹی سی پٹی مسلمانوں کو دے دی گئی تھی ،مگر وہ بھی چھینی جا رہی ہے.غزہ کی زمین تنگ سی پٹی ہیجو بحر روم اور اسرائیل کے درمیان واقع ہیاورجنوب میں اس کی سرحدمصر سے جا ملتی ہے.غزہ کا کل رقبہ 41 کلومیٹر لمبا اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے.اس کی 20 لاکھ کے قریب آبادی ہے،مگر اب جنگ میں 33 ہزار افراد سے زیادہ شہید ہو چکے ہیں.ہزاروں افراد لاپتا ہیں.ہزاروں افراد کو قیدی بنا لیا گیا ہیاور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہیبلکہ یہ کہنا درست ہے کہ پورے فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک درندگی کیا جا رہا ہے.کچھ افراد دوسرے ممالک کی طرف بھاگ گئے ہیں.اب فلسطین کی آبادی سکڑ رہی ہے اور ان سے زمینیں بھی چھینی جا رہی ہیں.کئی مسلمان بمباری اور گولیوں کا شکار ہو کر شہادت پا رہے ہیں،کئی معصوم بچے اور بڑے بھوک سے مر رہے ہیں.
اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم کو کوئی روکنے والا نہیں.چلو غیر مسلم طاقتیں تو نہیں روک رہی،مگر اسلامی حکمران کیا کر رہے ہیں؟کئی اسلامی ممالک بے پناہ دولت رکھتے ہیں,اسلحہ کے ذخائر کے مالک بھی ہیں اور فوج بھی رکھتے ہیں،مگر فلسطینی بیگناہ مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کر رہیہیں.کئی مظلوم فلسطینی ٹکڑوں میں بٹتیوقت سوچتے ہوں گے کہ مسلمان ہماری مدد کے لیے کیوں نہیں آرہے؟کئی خواتین محمد بن قاسم کی طرح کسی کو پکار رہی ہوں گی اور سوچ رہی ہوں گی کہ ہماری مددکے لیے کیوں نہیں آرہے؟غزہ دوزخ کا مقام بن چکا ہے.عمارتیں کھنڈر بن چکی ہیں اور کئی بن رہی ہیں.سکول ،مسجدیں اور عمارتیں تباہی کا نقشہ پیش کر رہی ہیں.فلسطین کے مسلمان اپنی زمین پر غیر ملکی بنا دیے گئے ہیں.اسرائیل ایک زبردستی کی ریاست ہے،جو فلسطینی مسلمانوں کی زمین پرجابرانہ طور پر بنائی گئی ہے.جتنا علاقہ مسلمانوں کو دیا گیا ہے،وہ علاقہ بھی ان سے چھیناجارہاہیاورفلسطینیوں کو دربدر کرنے پر مجبور کیا گیا ہے.مسلمان جو قرآن کے مطابق ،بھائی بھائی ہیں فوری طور پر ان کی مدد کو پہنچیں.جتنی جلدی ممکن ہو سکے ان کی مدد کرنی چاہیے قبل اس کے کہ دیر نہ ہو جائے.قیامت کے دن اللہ تعالی کو کیا جواب دیا جائے گا کہ ایک علاقے کی مظلوم،ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور دوسرے مسلمان اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے.غزہ کی مدد کیجئے،ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button