کالم

انوکھا مجاد فی سبیل اللہ ، حضرت ضرار بن الازور رضی اللہ عنہ

ننگے بدن والا ایک انسان تھا جسے دنیا ضرار بن ازور کے نام سے جانتی تھی۔ یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن انکے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور انکی راہ میں آنے سے کتراتے تھے۔جنگ ہوتی تھی تو ساریدشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے لیکن آفرین ضرار پر..زرہ تو درکنار وہ اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔ لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو انکے پیچھے دھول نظر آتی تھی اور انکے آگے لاشیں۔ اتنی پھرتی، تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کی صفیں چیر کر نکل جاتے تھے۔ انکی بہادری پر بیشمار مواقع پر خالد ? بن ولید ?کو تعریف کرنیاور انعام و کرام دینے پر مجبور کیا اور اسی لیے وہ انکے خاص سپہ سالار تھے۔
دشمنوں میں وہ "ننگے بدن والا” کے نام سے مشہور تھے۔
رومیوں کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ ضرار? حسبِ معمول میدان میں اترے اور صف آرائ دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ ?پڑے اور اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے کہ لڑتے لڑتے دشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیان دیکھا تو انکو بڑی مشکل سے نرغے میں لے کر گھیر لیا اور قیدی بنالیا۔
مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ ضرار کو قید کر لیا گیا ہے۔
خالد بن ولید نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا۔ اب جھنڈا عمیر ابنِ رافع کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے مکمل کوشش کی کہ ضرار کو آزاد کروالیں جسکے نتیجے میں درجنوں مجاہدین شہید ہوگئے مگر عمیر ناکام رہے۔ ایسے میں خالد بن ولید اپنی کمک لے کر انکی مدد کو پہنچے۔ وہ ابھی صفیں سیدھی کررہے تھے کہ اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جارہا تھا۔ اس سوار نے اتنی تندخوہی اور غضبناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ خالد ? بن ولید ?اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور عمیر سمیت سب ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟؟؟
لیکن سب نے لاعلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ خالد ? بن ولید نے جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔ ?گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی خالد ? بن ولید اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے اور کبھی وہ سوار خالد ? بن ولید کی مدد کرتا۔ رومی فوج اسکی بہادری دیکھ کر واپس بھاگنے لگی۔
خالد بن ولید اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟؟؟
اس سوار نے بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور رومی فوج کے تعاقب میں چلا گیا۔ خالد بن ولید نے دو محافظوں کو کہا کہ اسکو پکڑ کر لاؤ تو اسکو پکڑ کر خالد ? بن ولید کے پاس لایا گیا تو اس سوار سے پوچھا:
اے بہادر نوجوان!!! تیری قدر میرے سوا کوء نہیں کرسکتا،?تیری دلیری پر میں قربان جاؤں۔ تو کون ہے؟؟؟ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اپنا نقاب اتارو”۔
تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں تیرے لیے نامحرم ہوں اے ابنِ ولید!!! میں نقاب کیسے اتاروں؟؟؟ میں ضرار ? کی بہن ہوں "اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی ?جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔”
خالد بن ولید نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟؟
تو کہنے لگی:
"آپ نے منع کر دینا تھا۔”
خالد بن ولید نے کہا:
"آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے۔”
تو خولہ نے جواب دیا کہ ?”جب بھائیوں پر مصیبت آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔”
یہ ہے ایک مسلم خاتون کا کردار کہ جہاں مسلمانوں کا پورا لشکر پسپا ہوگیا تھا وہاں اس نے ازور کی بیٹی خولہ کے ساتھ مل کر ضرار کو رومی فوج کی قید سے آزاد کروا کر ہی دم لیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button