کالم

پردیسیوں کی عید

قارئین!جب تک محمد ۖنے مدینے میں اسلامی ریاست کا قیام نہیں کیا تھا تو اس سے پہلے عہد جہالت کے میلے ٹھیلے یا Festivalsہوا کرتے تھے ،جہاں ہلا گلا اور گہما گہمی ہوا کرتی تھی۔ جب وجہ تخلیق کائنات نے اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا تو انہوں نے مسلمانوں کو دو قومی Festivalsعطا کئے۔ ان میں ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحیٰ۔ یہ دونوں قومی تہوار نہ صرف مسلمانوں کے لئے خوشیوں کا باعث بنتے ہیں بالکہ ان دونوں ایام میں اللہ کی حمد و ثناء کثرت سے کی جاتی ہے،یوں وہ پرانے میلے جن کا کوئی مقصد نہیں تھا وہ متروک ہو گئے اور ایسے دو قومی تہوار مسلمانوں کو دئیے گئے جس میں نہ صرف خوشیاں Celebrateکی جاتی ہیں وہیں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بکثرت کی جاتی ہے۔
مجھ جیسے سفید پوش باسیوں کو ترقی کا شوق شہر کی طرف ہانک دیتا ہے۔اور پھر ہم یہیں کے ہو کہ رہتے ہیں۔گائوں لیکن ہم سے الگ نہیں ہوتا۔کبھی حسرت اور کبھی یاد بن کر وجود سے لپٹا رہتا ہے۔جیسے ایک قیدی جو رہائی کا طلبگار مگر بے بس۔قدم اٹھتا ہے تو ساتھ پائوں کی زنجیریں بھی چھنک اٹھتی ہیں۔
فراز ہم وہ غزالان دشت وصحرا ہیں
اسیر کر کہ جنہیںلوگ لائے شہروںمیں
قارئین ! تہوار تو عذاب محسوس ہوتے ہیں۔کیونکہ ادھر صبح اترتی ہے،اور ادھر یادوں کی بارات۔مناظر یکجا ہوتے،ایک قافلہ ترتیب دیتے،اور دھیرے دھیرے دل کی زمین پر قدم رکھ دیتے ہیں۔دل بوجھل ہو جاتا ہے۔منجمند لہو کا یہ پیکر برسوں کی حدت کو کیسے برداشت کرے،پگھلتا اور آنکھوںکے راستے بہنے لگتا ہے۔چھاجوںبرستا اور جل تھل کر دیتا ہے۔
بے بے جی یاد آتی ہیں۔مجسم انتظار۔ایک جزبہ،ایک پیکر محسوس میںکیسے ڈھلتا ہے۔میں نے پہلی دفعہ اپنے گھر میں دیکھا۔میری ماں میرے بھائیوں کے لئے سراپا انتظار ہیں۔جو تعلیم اور نوکری کے لئے شہر میں جا بسے ہیں۔ظہر سے چولہے کے سامنے بیٹھی ہیں۔چولہے میں دھیمی دھیمی آگ جل رہی ہے،اور ماں جی کے دل میں انتظار کا آتش کدہ۔میں کمسن کہاں سمجھ سکتا تھا۔اس وقت جانا جب کچھ بڑا ہوا۔اور بھائیوں کی طرح شہر کو سدھارا۔پھر میں نے ماں جی کو اپنا انتظار کرتے دیکھا۔دیکھا کہاں دل سے جانا،جو عید سے پہلے ہی گھر کی طرف کھینچنے لگتا تھا۔یہ دل نہیں تھا معلوم ہوا میری ماں کا انتظار تھا۔
باپ کے صبر و شکر کا پیکر ہے۔مدت ہوئی انہیں آسودہ خاک ہوئے۔مگر آج بھی ان کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔ شہزاد نہیں آیا۔عید سے ایک دن پہلے وہ مغرب کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو یہی سوال کرتے۔سوال کیا ایک خواہش ہے جو جواب چاہتی ہے۔مگر صرف اثبات میں۔معلوم نہیںکہ یہ سوال کتنی دعائوںکے جلوں میں،کتنے دنوں سے ان کے ہمرکاب ہے۔باپ کو مگر جزبات چھپانا خوب آتا ہے۔اگرچہ مزاج میں رقت بہت ہے۔یادوںکی اس باارات میں چچی جان بھی شامل ہیں۔ہمارے پڑوس میں رہتی ہیں۔اب کئی سال سے بہشت کے انتظار میں ایک انتطار گاہ میں بیٹھی ہیں۔دیوار سانجھی تھی۔دیوار تو خیر نام کی تھی۔یہ ہمارے اور چچی کے درمیان کبھی دیوار نہ بن سکی۔ماںبتاتی تھیں کہ میرے بڑے بھائیوں کو جب والد صاحب سے مار پڑتی تو چچی ہی بچاتی تھیں۔انہیںکسی طرح سے خبر ہو جاتی اور بھاگتی ہوئی آتیں۔لالہ جی بس کرو۔بھائی کے سامنے ڈھال بن جاتیں۔مارصرف پڑھنے پر پڑھتی ،کتاب ہو یا نماز۔
چچی کو بھی میرے بھائیوں کا نتطار ہوتا۔امی جی سے زیادہ تو نہیں لیکن شائد کم بھی نہیں۔میں گھر میں قدم رکھتا تو انہیں اطلاع ہو جاتی۔بس چند منٹ ہی گزرتے تو بسم اللہ بسم اللہ کہتی حویلی کے دروازے سے داخل ہوتیں۔میرے ایک گال پہ تین بوسے دوسرے گال پہ تین بوسے۔یہ بوسے اسی
طرح ثبت ہیں کہ ماںکے اور ان کے بوسے کے ذائقے میںفرق نہیں کر سکتا۔
ان کا بیٹافوج میںتھا۔1970میں مشرقی پاکستان میں تعینات تھا۔جنگ ختم ہوئی تو پہلے خبر آئی کہ لاپتہ ہے۔ماںکا انتظاردم توڑگیاجب ایک روزشہادت کی اطلاع ملی۔اب مجھے خبر ہوئی کہ چچی مجھ میں اپنا بیٹا تلاش کرتی ہیں۔میں اور ان کا بیٹا سب کے لئے ایک جیسے تھے۔
عید گاہ سے نکلتے ہی ہر کوئی اپنی طرف کھینچتا۔محبت کی یہ فراوانی فیصلہ مشکل بنا دیتی۔ہم بھی اپنی باگ دوستوں کے ہاتھوں میں دے دیتے کہ جہاں لے چلیں۔یہ ہمیں معلوم تھا کہ جہاں وہ رکیںگے امان اور محبت ہی ہو گی۔یہ ملاقاتیں امی جی کے انتظار کو طویل بنا دیتی۔کبھی تو گھر واپس آتے آتے ظہر کا وقت ہو جاتا۔برس ہا برس ہم عید کی نماز مسجد میں پڑھتے رہے۔پھر ایک چار دیواری بن گئی جسے عید گاہ کہا گیا۔جب تک میرے والد گرامی زندہ رہے ،یہ سوال نہیں اٹھا۔پورا گائوںان کی بات مانتا تھا۔بڑھاپے نے انہیں آلیا تو گائوں کے پاس کوئی ان کا متبادل نہیںتھا۔یوںتسبیح کے دانے بکھرنے لگے۔ایک وقت آیا تین تین عیدیں پڑھیں گئیں۔عیدگاہ نے پھر جمع کر دیا۔
قربانی کا منظرتو بہت یادگار ہوتا۔لوگ خود ہی جانوروں کے گلے پر چھری پھیرتے۔اور خود ہی گوشت بناتے۔قصائی پورے گائوں میں نہیں تھا۔دو تین افراد تھے جنہیں نسبتا تجربہ کار کہا جا سکتا تھا۔کھال اتارنے کا کام اکثر ان سے لیا جاتا،کہ یہ مہارت چاہتا ہے۔ویسے بھی اس دور میں کھال اتارنے والے کم تھے۔یہ فراونی تو چند سال پہلے آئی ہے۔والد صاحب کی وجہ سے لوگ ہمیںکم ہی کام میں شریک کرتے۔ہمارے حصے کے کام خود کر دیتے۔محبت آمیز احترام کے اب یہ مناظر کہاں۔اور ہاںمیرے بچپن کے دوست عمران، کامران، فیصل، اظہر،اور علیم کے گھر کی چھت جس طرح ہمارے گھر کی چھت سے ملی ہوئی ہے،اسی طرح دل بھی ان سے ملا ہوا ہے۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ہمار شغل ایک ہی ہوتا تھا،تاش کھیلنا۔ اب آپ سے کیا پردہ۔والد صاحب سے چھپ کر۔عید میں سبب ملنے ملانے کے بعد کامران نذر کی بیٹھک میں جمع ہو جاتے۔علیم پتے چھپانے کا کاہر تھا۔اس کی یہ حرکت کھیل کو دل چسپ بنا دیتی۔شہر نے زندگی کے اس فطری حسن کو چھین لیا۔والد صاحب رخصت ہوئے تو گھر کی بنیاد ہل گئی۔گھر ہی نہیں گائوں سے تعلق کی بنیاد بھی کمزور ہو گئی۔والدہ کی خواہش تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں،گھر کے دروازے بند نہ ہونے پائیں۔کچھ سال تو سب بہن بھائی عید پر جمع ہوتے رہے،مگر یہ مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔برقعے کی جگہ اب امی نے بھی بڑھاپے کی ردا اوڑھ لی۔ہم انہیںبہ اصرار شہر لے آئے۔یوں والد صاحب کے جانے سے جس تعلق کی بنیاد ہلی تھی،والدہ کے شہر منتقل ہونے سے اس کی چھت بھی گر گئی۔اب صرف یادوں کا کھنڈر باقی ہے۔ہمارا گھر اس کی مجسم تصویر ہے۔
ایک روز والدہ بھی رخصت ہو گئیں۔یوں گائوں کی طرف لوٹنے کا موہوم سا خیال بھی دم توڑ گیا،شائد ہمیشہ کے لئے۔کیا گائوںمیں اب بھی کوئی چچی ہوتیںہیں۔کیا اب بھی ناڑیاںکے جنگل کنارے پر فضائیں ہوائیں ماحول کو معطر کرتی ہیں۔کیا اب بھی لوگ اپنے پیاروں کا انتظار کرتے ہیں؟گائوں سے لوٹنے والے اچھی خبریں نہیں سناتے۔یہ دل گداز داستان،مگر یہیں چھوڑتا ہوں کہ مکمل کرنے کا یارا نہیں۔آپ سب کو عید کی مبارک باد۔بالخصوص ان کو جو گائوں چھوڑ کر شہر میں آ بسے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button