کالم

عید کی چھٹیوں پر سرکاری ملازمین کے تحفظات

حکومت پاکستان نے عیدالفطر کے موقع پر سرکاری چھٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے مطابق جن سرکاری اداروں یا دفاتر میں ہفتے میں پانچ دن کام ہوتا ہے انہیں 10 سے 12 اپریل تک یعنی تین چھٹیاں ہوں گی۔ جن وفاقی اداروں یا دفاتر میں ہفتے میں چھ دن کام ہوتا ہے انہیں 10 تا 13 اپریل یعنی چار دن کی چھٹیاں ہوں گی۔ صورتِ حال سے ناواقف لوگ اس بات پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ چھٹیوں میں یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے۔؟ ان کے لیے بتاتے چلیں کہ فرق کچھ بھی نہیں ہے۔ 13 اپریل کو ہفتے کا دن ہے۔ جن دفاتر میں پانچ دن کام ہوتا ہے وہاں ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ ہفتے میں چھ دن کام کرنے والے دفاتر کو ہفتہ والے دن بھی ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے اس لیے انہیں 13 اپریل یعنی ہفتہ والے دن کی بھی چھٹی دی گئی ہے۔ اس طرح سے اس عیدالفطر پر عملی طور پر 10 تا 14 اپریل یعنی کل ملا کر پانچ چھٹیاں ہوں گی۔
پنجاب کی صوبائی حکومت نے بھی اسی سے ملتا جلتا چھٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ باقی صوبے بھی اس کالم کی اشاعت تک اعلان کر دیں گے۔
جہاں تک چھٹیوں کی تعداد کا تعلق ہے تو تمام سرکاری ملازمین اس سے خوش ہیں۔ پرائیویٹ اداروں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے ملازمین بھی یقیناً خوش ہوں گے کہ وہاں بھی اسی شیڈول کی تقلید کی جائے گی۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں رہنے والوں کی جڑیں دیہات میں ہیں۔ شہری آبادی کی اکثریت دیہات سے نقل مکانی کر کے عارضی یا مستقل بنیادوں پر شہروں میں رہائش پذیر ہو گئی ہے۔ سرکاری اور پکی نوکری
والے افراد مستقل طور پر شہروں میں جا بسے ہیں۔ ایک معقول تعداد ان لوگوں کی بھی شہروں میں رہائش پذیر ہے جو اپنے بچوں کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔ روزانہ کنواں کھود کر پانی نکالنے والے یعنی مزدور پیشہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بہتر روزگار کی تلاش اور حصول کے لیے شہروں میں رہتی ہے۔ یہ لوگ اپنے کسی عزیز رشتہ دار کی شادی، کسی فوتیدگی یا عیدین کے موقع پر ہی اپنے
آبائی گائوں جا پاتے ہیں۔ شہری زندگی کی تیزرفتاری، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے روپیہ کمانے کی دُھن یا دفتری مصروفیات انہیں گائوں جانے نہیں دیتیں۔ اپنی جنم بھومی سے پیار کرنے والوں اور والدین، سسرال، عزیزوں، رشتہ داروں اور بچپن کے دوستوں یا سہیلیوں کی یادوں میں ہر وقت مصروف رہنے والوں کے لیے چند دن اپنے آبائی گائوں یا قصبے میں گزارنا کسی فیسٹیول سے کم نہیں ہوتا۔ عید کے موقع پر شہروں کی اسی فیصد آبادی عید منانے اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہوتی ہے۔ حکومت نے اکٹھی پانچ چھٹیاں دے کر ان کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا ہے۔
سرکاری ملازمین نے چھٹیوں کی تعداد پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا ہے لیکن جاری کردہ شیڈول پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ ماہرینِ فلیات اور موسمیات کے مطابق عیدالفطر 10 اپریل کو ہونے کا غالب امکان ہے۔ اگر سرکاری تعطیلات کا آغاز 10 اپریل کو ہو گا تو ملازمین اپنے آبائی علاقوں کو کب روانہ ہوں گے؟ غور کیا جائے تو ان کی اس بات میں بڑا وزن ہے۔ بعض خاندان ڈیڑھ دو سو کلومیٹر کا سفر کر کے اپنے آبائی مقام پر پہنچیں گے تو بعض ستر اسی کلومیٹر کا سفر کریں گے۔ کئی خاندان تین چار سو کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے کریں گے۔ ایسے میں 9 اپریل کی شام کو کام سے واپس گھر آنے کے بعد خاندان سمیت ان کا سفر پر نکلنا انتہائی دشوار کام ہو گا۔ اگر انہوں نے تھوڑی بہت خریداری بھی کرنی ہو تو صورتِ حال مزید خراب ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کی حالت پہلے ہی دگرگوں ہے۔ عام دنوں میں بھی رش لگا رہتا ہے۔ عید کے موقع پر یہ رش کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ٹرانسپورٹر سواریوں کو نہ صرف بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں اور ویگنوں میں ٹھونستے ہیں بلکہ من مانا کرایہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مسافر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بادلِ ناخواستہ ان کی بلیک میلنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر صبح عید ہو تو شام یا رات کے وقت لمبے سفر پر روانہ ہونے والوں کی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مسافروں کا رش کئی گنا بڑھ جائے گا۔ سڑکوں پر ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں ہوں گی جو زیادہ کمائی کے لالچ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے ٹریفک کے کسی قانو ن کی پروا نہیں کریں گی۔ نتیجے کے طور پر کئی حادثات ہو سکتے ہیں۔ رات کے وقت موٹر سائیکلوں پر لمبا سفر کرنے والوں کو ٹریفک حادثات کے علاوہ لٹیروں اور راہزنوں کا خطرہ بھی ہو گا۔
اگر حکومت تعطیلات کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی کرے اور عید کی چھٹیوں کا آغاز 9 اپریل سے کر دیا جائے تو سرکاری ملازمین عید کی حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ وہ 8 اپریل کی شام کو اپنے والدین اور عزیز و اقارب کے لیے سکون سے خریداری کر کے 9 اپریل کی صبح اپنے آبائی گھروں کو روانہ ہو سکیں گے۔ ایک بڑی تعداد 8 اپریل کی شام کو روانہ ہو جائے گی۔ 9 اپریل کا سارا دن بھی ملازمین کے پاس ہو گا۔ اس طرح مسافروں کا رش مختلف اوقات میں تقسیم ہو جائے گا۔ حادثات کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ افراتفری سے بھی نجات ملے گی۔ اگر اس قدر فوائد حاصل ہو رہے ہوں تو چھٹیوں میں ایک دن کا اضافہ کرنا نامناسب نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button