گزشتہ سال سوشل میڈیا پر دہلی کے وزیرِ اعلیٰ ارویند کجریوال کی ایک تقریر کرتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ بتا رہے تھے کہ دہلی کے سرکاری سکول اتنے شاندار ہو گئے ہیں کہ ان کا بارہویں جماعت کا رزلٹ 99.7 فیصد رہا ہے جس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سالِ رواں میں 4 لاکھ طالب علموں نے پرائیویٹ سکولوں کو خیرباد کہہ کر سرکاری سکولوں میں داخلہ لیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سرکاری سکولوں میں جماعت نہم سے لے کر بارہویں جماعت تک بزنس کرنا سکھایا جاتا ہے۔ بارہویں جماعت کے بچوں کو دو ہزار روپے فی کس دیے جاتے ہیں کہ ان سے اپنا بزنس شروع کرو۔ وہ انفرادی یا گروہی طور پر بزنس شروع کرتے ہیں۔
کجریوال نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پانچ بچوں نے دس ہزار روپے لگا کر ایک ڈرنک بنائی جو کافی کی طرح ہے لیکن اس میں کیفین نہیں ہے۔ یہ ایک نیوٹریشن ڈرنک ہے۔ اس بزنس کو شروع کرنے والے طلبہ نے 6 ماہ میں دس ہزار روپے لگا کر ڈھائی لاکھ روپے کمائے۔ انہوں نے انویسٹرز سے رابطہ کیا تو انہیں سترہ لاکھ پینتیس ہزار کی انویسٹمنٹ مل گئی۔ آٹھ بچوں کے ایک اور گروپ نے سولہ ہزار روپے کی مدد سے ایک نئی قسم کا کمپوسٹ (Bone Meal) بنایا۔اسے بیچ کر انہوں نے پینسٹھ ہزار روپے کما لیے۔ انہیں سولہ لاکھ کی انویسٹمنٹ مل گئی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ طلبہ انٹرنیٹ پر جاتے ہیں۔ اپنی ویب سائٹ بناتے ہیں اور مال انٹرنیٹ پر فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔کجریوال نے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ چھ بچوں نے بارہ ہزار روپے سے گیمنگ پلیٹ فارم بنایا۔ انہوں نے چھ ماہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا مال بیچا۔ انہیں اٹھارہ لاکھ روپے کا انویسٹمنٹ ملا۔ظاہر سی بات ہے جب یہ بچے ڈگری کر کے نکلیں گے تو انہیں نوکری نہیں ڈھونڈنی پڑے گی۔ ان کے پاس اپنے بزنس آئیڈیاز ہوں گے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ ایک ایسی مثبت تبدیلی ہے جو صوبے اور پورے ملک میں معاشی انقلاب برپا کر دے گی۔ارویند کجریوال سیاست میں آنے سے پہلے بیوروکریٹ تھے مگر نظام بدلنے کی خواہش نے انہیں استعفیٰ دے کر سیاست میں آنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی بنائی اور دہلی سے سیاست کا آغاز کر دیا۔ عوام نے ان کی پالیسیوں سے اتفاق کیا اور اس وقت وہ تیسری مرتبہ دہلی کے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے اپنے صوبے میں لوڈشیڈنگ ختم اور بجلی مفت کر دی ہے۔انہوں نے سرکاری سکولوں، ہسپتالوں اور سڑکوں کو تباہ حالی سے نکال کر جدید بنا دیا ہے۔ دہلی میں عوام کے لیے تعلیم اور علاج مفت ہونے کے ساتھ خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ مفت ہے۔ سات سال میں حکومت کا بجٹ 30 ہزار کروڑ سے 75 ہزار کروڑ کرنے کا سہرا بھی کجریوال کے سر ہے جو اپنے لوگوں کو کرپشن جیسے ناسور سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے دہلی میں اتنے سی سی ٹی وی کیمرے لگوا دیے ہیں کہ لندن،نیویارک اور شنگھائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آپ دہلی میں رہتے ہیں اور شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈومیسائل یا کوئی سرکاری لائسنس بنوانا چاہتے ہیں۔ فون اٹھائیے اور متعلقہ دفتر سے رابطہ کر کے اپنی ضرورت بتائیے۔ عملہ آپ کے گھر آ کر تمام پراسس مکمل کرے گا اور آپ کو مطلوبہ دستاویز بھی گھر میں ہی پہنچائی جائے گی۔ کیجریوال کی پالیسیوں اور اس کی عام آدمی پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ کانگریس اور بی جے پی جیسی پرانی پارٹیوں کو شکست دے کر بھارتی پنجاب میں بھی اس نے اپنی حکومت قائم کر لی ہے۔ آج کل ان کی مقبولیت سے خائف ہو کر مودی سرکار ان کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں پر اتری ہوئی ہے۔اب ذرا ہمارے ہاں کا جائزہ بھی لے لیجیے۔ جو حکمران بھی آیا اس نے کرپشن اور اقربا پروری میں اضافہ ہی کیا۔ عوامی مسائل کا حل کسی بھی حکومت کی ترجیح رہا ہی نہیں۔ عوام کے نام پر لیے گئے قرضے حکمران اور ایلیٹ کلاس کھا جاتی ہے۔ قرضوں کے عوض گروی رکھی گئی عوام کو ریلیف دینے کی بجائے قرض اتارنے کے لیے ان پر بھاری ٹیکس اور مہنگائی کا عذاب نازل کر دیا جاتا ہے۔ سکولوں کے اساتذہ کو سال سال بھر تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ سڑکوں اور عمارتوں کے ٹھیکے من پسند ٹھیکیداروں یا اپنے فرنٹ مینوں کو دلوا کر تجوریاں بھری جاتی ہیں۔ آئے دن ادویات مہنگی اور زندگی سستی کر دی جاتی ہے۔ بے کار تعلیمی نظام اور ناکارہ تعلیمی سلیبس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں بے کار ڈگری ہولڈر پیدا کیے جا رہے ہیں جن کا مستقبل تاریک ہے۔ وہ نوجوان اپنی ڈگریاں اٹھائے اوور ایج ہونے تک نوکری کی درخواستیں ہی دیتے رہتے ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی ہنر ہوتا ہے اور نہ کوئی بزنس آئیڈیا۔ قوم کو وظائف اور خیرات پر لگا دیا گیا ہے۔ عوام کو ہنر مند بنانے کی بجائے بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ تعلیم، صحت اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات عوام کو مفت مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر انہیں انتہائی مہنگا کر کے عوام کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔ کوئی بھی ایم پی اے، ایم این اے، وزیر، مشیر یا سرکاری افسر اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروانے کو تیار نہیں کہ یہ تو عام اور بے کار لوگوں کی اولاد کے لیے بنائے گئے ہیں جن میں سہولیات کا شدید قحط ہے۔ ہماری حکمران ایلیٹ کلاس نے طبقاتی فرق کو ہر جگہ نمایاں کر رکھا ہے۔ایلیٹ کلاس نے تمام مراعات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ عوام کو مفت آٹا اوربے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بھیک اور طالب علموں کو وظیفوں کی قطاروں میں لگا دیا گیا ہے۔ کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ بھوکی عوام کو مچھلی نہ دیں بلکہ مچھلی پکڑنے والا کانٹا دے کر مچھلی پکڑنا سکھائیں۔ تعلیمی اداروں میں بھکاری طلبہ کی نہیں، ہنر مند طلبہ کی کھیپ تیار کریں، انہیں مستقبل میں ملازمت کے متلاشی نہ بنائیں بلکہ کاروبار کرنا سکھائیں۔ 77 سال سے قرض لے کر ملکی معیشت کو چلانے کی بجائے خود کفالت کی طرف بڑھیں۔ حکمران خود بھی سادہ طرزِ زندگی اپنائیں اور عوام کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ تعیّشات پر بھاری ٹیکس عائد کریں۔ منزل سامنے ہے، ضرورت درست سمت کا انتخاب اور ثابت قدمی و خلوص کے ساتھ سفر شروع کرنے کی ہے
۔ ہماری آبادی کی یوتھ کی شرح 65 فیصد ہے۔ انہیں بے کار سیاسی سرگرمیوں سے نکال کر معاشی سرگرمیوں کی طرف راغب کر کے ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا وقت کاشدید تقاضا ہے ورنہ تباہی کی طرف تیزی سے بڑھتی ہماری معیشت کی گاڑی کسی خطرناک گڑھے میں گر کر ہم سے ہمارا ایٹم بم بھی چھین لے گی۔
ملکوں کے عروج یا زوال کا تعین لیڈروں یا حکمرانوں کا کردار اور ان کی ترجیحات طے کرتی ہیں۔ ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قائدِ اعظم کے بعد ہمیں صرف لٹیرے ہی میسر آئے۔ پنجاب میں محترمہ مریم نواز شریف کے سٹائل سے لگ رہا تھا کہ وہ عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں مگر وہ بھی سرکاری سکولوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہیں۔ لگتا ہے بیوروکریسی نے انہیں اپنے جال میں پھنسا لیا ہے۔
0 37 5 minutes read