کالم

توصیف اور سعید کے لیے عزیز ایک اعزاز

لوگ بھی وکھرے ہیں گلوبل ویلیج بننے کے بعد ہاتھوں میں جدید ٹیکنالوجی سے مزین موبائیل فون رکھنے کے بعد اس غلطی پر ہیں کہ صحافیوں کے پاس کوئی خبر ہوگی اب کہاں وہاں زمانہ خبروں کا مجموعہ اخبار کی صورت مارکیٹ میں موجود تو ہے مگر اس میں خبر کم ہی نظر آتی ہے اصل میں جو خبر ہوتی ہے وہ چھپ نہیں سکتی وجہ نہ چھاپنے کی صحافی کہلانے کے دعوے دار ہی بیان کر سکتے ہیں ایسے ماحول میں خبر پر نظر کم ہی پڑھتی ہے رمضان المبارک کے تقدس میں خبروں کے بجائے صحافی کی نظر بھی عیدی پر ہوتی ہے عیدی مانگ کر لی جائے یا بلیک میل کر کے یہ کہانی اور بھی دلچسپ ہے اس رمضان ایک خبر پر نہ جانے کیوں میری نظر جم سی گئی شہر راولاکوٹ جہاں ایک طرف سردار بہادر علی خان کی قوم پھر سارے آزاد کشمیر کو حقوق ملکیت کی طرح اپنی بجلی اپنا راج کی راہ پر دس ماہ سے گامزن کیے ہے مگر یہاں جان دینے والے ابھی بھی مال دینے کی اہمیت نہیں سھمجھ پا رہے جہاں آج بھی ایک روپیہ خرچ کر کے ستر روپیہ کا اجر حاصل کرنے کی دل لگی نہ ہے جہاں رمضان المبارک صرف عبادات تک محدود ہے جہاں ہزاروں مزدور اور غریب افطاری کے وقت مظلومیت کی تصویر بنے ہوتے ہیں جہاں غریب رشتہ دار کو زکو دیکر احسان گنے جاتے ہیں وہاں ایک انہونی ہو رہی ہے وہ رمضان المبارک کی سب سے بڑی خبر ہے مگر صحافی کی نظر اس پر نہیں جا رہی ایک معمولی سا رپورٹر ہوتے اس خبر کو "عام”کرتے میں سعادت سھمجھ رہا ہوں اس کی قطعی وجہ یہ نہیں کہ یہ کار خیر انجام دینے والے برادران نے میرے موسیال ٹبر کا دودھ جو پیا ہے نہ یہ ہی ایک وجہ ہے کہ صوفی صاحب کے خون میں ایسی شفافیت تھی بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ سب خدا کی رضا کا نتیجہ ہے ورنہ فرینڈز برادران سے کہیں زیادہ دولت اور بہت گھروں کے پاس ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔ راولاکوٹ کے نواحی گاں ہورنہ میرہ میں جنم لینے والے درویش صفت صوفی عزیز کے بیٹوں اور خاص کر توصیف عزیز اور سعید عزیز کو قدرت نے اس اعزاز سے نوازا کہ اج ان پر رشک آتا ہے روزوں کی شام جب مختلف دکانوں سے رنگ برنگی اشیا خور ونوش اور زاہقہ دار پکوان لیے صاحب ثروت گھروں کو جاتے ہیں نہ جانے کتنے دیہاڈی دار کتنے سفید پوش کتنے مزدور ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس افطاری کے لیے کھجور تک نہیں ایدھی ظفر اقبال عالمگیر خان نے کراچی میں جو افطاری کی رونق دوبالا کر رکھی ہے وہ راولاکوٹ کے نواحی علاقے مجاہد آباد میں صوفی عزیز کے بیٹوں نے سجا رکھی ہے بڑے اور وسیع دستر خوان کا اہتمام کیا جاتا ہے افطاری اور پر تکلف کھانا روزانہ سینکڑوں افراد کو عزت واحترام سے دیا جاتا ہے ایک صاحب بتا رہے تھے کہ روزانہ افطاری کی ویڈیو میزبان راول پنڈی اپنے گھر چیک کرتے ہیں ایک روز ایک روزہ دار کی پلیٹ میں دوسرے کی پلیٹ سے کم بوٹی دیکھ کر زمہ داران کو تنبیہ کی کہ ہر ایک پلیٹ میں ایک جیسی بوٹی ایک جیسا سالن ایک جیسی افطاری ہو کوئی روزہ دار یہ محسوس نہ کرے کہ اس کے ساتھ طبقاتی امتیاز برتا جاتا ہے راولاکوٹ میں یہ پہلی اجتماعی افطاری ہے جو ایک سمت کا تعین کیے ہے پونچھ کی سرزمین سری نگر سے فلسطین جان قربان کرنے گریز نہیں کرتی مگر یہاں ابھی تک مال خرچ کرنے کا رحجان نہیں مکار جھوٹے کرپٹ سیاست کاروں بیوروکریسی کی خاطر سرمایہ دار طبقہ پیسہ خرچ کرنا ثواب سھمجتا ہے مگر رمضان المبارک میں راولاکوٹ سمیت سارے پونچھ میں ایک مردہ معاشرے کی عکاسی واضع سامنے آ جاتی ہے اس جمود اور سکوت کو صوفی عزیز کے بیٹوں نے توڑامگر اس کی تقلید کرنے کوئی سامنے نہیں آرہا گاں گاں اس کی ضرورت ہے ہر چھوٹے بازار میں اس کا اہتمام ناگزیر ہے شہر راولاکوٹ میں ایک نہیں دو نہیں پانچ مقامات پر اس کی ضرورت ہے صاحب ثروت موجود ہیں اعجاز یوسف کا اصل کام ہی سماجی خدمت بنتا ہے وہ شہر کے ایک مرکزکو سھنبال لیں شاہ زیب شبیر دوسرا مرکز سھنبال لیں گے قاسم خان مرحوم کی اولاد کے لیے مرکز سھنبالنا معمولی بات ہے وادی جبوتہ کے سارے تاجران ایک مرکز اپنے زمہ لیں ایک مرکز شہر کے تاجران وکلا اور دیگر لوگ مل کر سھنبال لیں مارکیٹ مالکان کا ایک بڑا دستر خوان روزانہ دو سو روزے داروں کو با آسانی افطاری کروا سکتا ہے کچہری روڑ منگ رو ڑ ہجیرہ روڑ سی ایم ایچ گیٹ سپلائی بازار بلدیہ اڈہ جیسے مقامات پر روزانہ دو سو افراد کی افطاری ہو اعلی میعار کا کھانا اور سادہ افطاری تیس ہزار روپیہ سے زیادہ اخراجات نہیں آتے ایک مرکز پر زیادہ سے زیادہ نو لاکھ یہ روز قیامت کا نفع دے اس کا تصور ہی نہیں پھر بھوکے پیاسے غریب یا روز ایسی افطاری کریں گے جو دعا نکلے گی اس کا کیا کہنا ایک خواب ہے ایک ارمان ہے ضرور پورا ہوگا جب توصیف عزیز اور سعید عزیز کے عمل خلوص اور غریب دوستی کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں صوفی عزیز کتنے خوش نصیب تھے جن کے بیٹوں کو یہ درد دیا اور درد نے وہ توفیق بخشی وہ روزے داروں کے دل جیت رہے ہیں جے سی ڈی کے ظفر اقبال سے عالمگیر خان وہ پیغام دے چلے اہل پونچھ بھی کراچی کی راہوں پر چل پڑے کل ہی سوشل میڈیا پر گجرانوالہ کی سحری کی رپورٹ دیکھ کر رشک آیا رپورٹر کہہ رہا تھا ایک لاکھ افراد کو روزانہ سحری دے رہے ہیں پھر اپنے شہر راولاکوٹ کا اس وقت تک منظر دیکھ کر دل خون کے آنسو رو پڑا یقین ہے کہ کل شہر راولاکوٹ میں کہیں دستر خوان سجیں گے افطاری اور سحری کی دوڑ ہوگی پاکستان میں کراچی اور کشمیر میں راولاکوٹ کی مثالیں دی جائیں گی کوئی مزدور کوئی ملازم کوئی محنت کش جو کسی وجہ گھر سے دور ہوگا راولاکوٹ شہر میں اس کو گھر جیسی افطاری ملے گی گھر جیسی سحری ملے گی بہادر علی خان کا تو کوئی بیٹا نہیں تھا وہ حقوق ملکیت کی جنگ لڑا سارے کشمیر کو حق ملکیت دلا گیا مہاراجہ کے مزاعاروں کو زمینوں کا مالک بنا گیا پھر کیسے یہ ہو کہ بہادر علی خان کی سرزمین پر مہمان ملازم مزدور محنت کش گھر جیسی افطاری اور سحری نہ کرے توصیف عزیز اور سعید عزیز نے شروعات کر دی اب شہر راولاکوٹ کے ہر چوک سے ہر محلہ گاں اجتماعی افطاری کی ریت پڑے گی آنے والی نسلیں توصیف عزیز اور سعید عزیز کو یاد رکھیں گی آج چھپی خبر کل داستان بن جائے گی کل کہانی بن جائے گی کل مثال بن جائے گی صوفی عزیز کتنے خوش نصیب ٹھرے جن کی اولاد یہ حقیقت جان گئی کہ مال خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا بڑھتا ہے ڈھیر ساری دعائیں فرینڈز برادران کے لیے جو سارے پونچھ پر لگے کنجوسی اور کھوٹے پن کے داغ کو دھو بیٹھے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button