کالم

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی طرف داری ہے

جس معاشرے میں ظلم اور جبر حد سے بڑھ جائے وہاں لوگوں کی اکثریت ظالم کی طرف دار بن جاتی ہے، اس وجہ سے نہیں کہ انہیں ظلم پسند ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثریت بزدل ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس طرح سے ظالم کے ظلم سے اسے نجات مل جائے گی۔ کچے کے ڈاکوئوں کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے کہ مقامی لوگ ان ڈاکوئوں کے خوف سے ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان ڈاکوئوں کے موبائل فون میں بیلنس ایزی لوڈ کرواتے ہیں۔ ان کی مخبری کرتے ہیں۔ ان کے لیے ”شکار” تلاش کرتے ہیں۔ متوقع شکار کے فون نمبرز حاصل کر کے ان ڈاکوئوں تک پہنچاتے ہیں۔ بدلے میں جان کی امان اور لوٹ مار کی رقم سے کبھی کبھی انتہائی معمولی معاوضہ بھی وصول پاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ظلم کرنے والے تو ایسے وحشی درندے بن چکے ہوتے ہیں جن کو مظلوموں کے لہو کی چاٹ لگ چکی ہوتی ہے اور جب بھی ان کی پیاس بھڑکتی ہے تو پھر جو بھی سامنے آ جائے ان کی دستبرد کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے بزدل معاشرے میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا مظلوموں کا ہیرو نہیں ہوتا بلکہ ان کی لعن طعن اور طنز و نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ لوگ ظالم کو دل میں تو برا سمجھتے ہیں مگر عملی طور پر نہ خود ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں اور نہ ہی بغاوت کرنے والے کی حمایت کرتے ہیں۔ ظلم سہنا دراصل ظالم کی طرف داری کرنے کے مترادف ہے۔ وہی معاشرے زندہ اور سربلند رہتے ہیں جو اپنی انا، خودی، غیرت اور عزت کی حفاظت کرتے ہیں۔ بزدلوں کی نہ تو اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیا میں ان کی کوئی عزت ہوتی ہے۔ بزدلی کو مصلحت کا نام دینے والے کبھی عزت دار نہیں کہلوا سکتے۔
ہم نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ اشیاء ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی موثر احتجاج نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن سے احتجاج کا خطرہ ہوتا ہے انہیں سستے داموں چپکے سے نواز دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ نام نہاد صحافی ہوں یا خودساختہ سوشل ورکر۔ اپنا حصہ وصول پا کر خاموشی اختیار کر کے عوام کو ان خون آشام بھیڑیوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم میں سے ایک بڑی تعداد پرلے درجے کی منافق ہے۔ ظلم سے نفرت مگر ظالم کی طرفداری کرتی ہے۔
ایک گاؤں میں ڈاکو داخل ہوئے اور وہاں کی تمام عورتوں کی عصمت دری کر دی۔ مگر ایک خاتون ایسی تھی کہ جب اس کے گھر میں ڈاکو داخل ہوا تو اس نے اس ڈاکو کو قتل کر کے اس کا سر کاٹ دیا. واردات کے بعد جب تمام ڈاکو اس گاؤں سے چلے گئے تو گائوں کی عورتیں اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سمیت گھروں سے نکل آئیں اور روتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی اپنی روداد بیان کرنے لگیں. اتنے میں وہ بہادر خاتون اپنے گھر سے باہر نکلی، عورتوں نے دیکھا کہ اس کے گھر میں داخل ہونے والے ڈاکو کا سر اس نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ وہ نہایت غیرت و خودداری کے ساتھ ان کی طرف آنے لگی. اس خاتون نے بلند آواز سے کہا کہ ”کیا تم نے سوچ لیا تھا کہ وہ مجھے مارے بغیر میری عزت تار تار کر سکتا تھا”..؟
گاؤں کی عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے تاکہ ان کی عزت بچی رہے اور ان کے شوہر کام سے واپس آنے پر ان سے یہ نہ پوچھیں کہ تم نے اس کی طرح مزاحمت کیوں نہیں کی؟
پھر انہوں نے اس بہادر خاتون پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ انہوں نے ذلت کو زندہ رکھنے کے لئے عزت کا قتل کر دیا۔ یہی حال آج ہمارے معاشرے کے چور، حرام خور، جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کا ہے۔وہ ہر عزت دار اور خوددار شخص کو مارتے ہیں، غریب اور سفید پوش کو حقیر جانتے اور اس کا استحصال کرتے ہیں تاکہ وہ ان کی کرپشن، جھوٹ، چوری اور حرام خوری کے خلاف بات نہ کر سکے۔ اصل میں یہ لوگ اپنی عزتیں گنوا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی عزت سے محروم ہو کر عزت داروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ آج دوسروں کو انصاف دینے والے محترم جج صاحب کی بیوی اپنی کمسن ملازمہ کو تشدد کر کے اس کی ٹانگ اور بازو توڑ دیتی ہے۔ اس بے چاری کے زخمی سر میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ وہ تڑپ تڑپ کر ہسپتال میں جان دے دیتی ہے مگر سول سوسائٹی خاموش تماشائی بنی منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی رہتی ہے۔ موم بتیاں جلا کر انسانی حقوق کا علم بلند کرنے والی آنٹیاں کسی گہرے کنوئیں میں اتر جاتی ہیں۔ اسکینڈلوں کے متلاشی میڈیا کے ”پر” اس قتل پر بات کرتے ہوئے جلتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ غریبوں کے ہمدرد سیاستدان اس معاملے میں گونگے بہرے اور اندھے بن جاتے ہیں۔ گویا جج صاحب کی سرکار میں بندہ و صاحب و سیاستدان و انقلابی و لبرلز سبھی ایک پیج پر ہیں کہ طاقت کو سلام ہے۔ یونیورسٹیوں میں حوّا کی بیٹیاں لُٹ جاتی ہیں۔ سمجھوتہ نہ کرنے والی عزت دار بیٹیاں ”مبینہ خودکشیاں” کر رہی ہوتی ہیں مگر ان مظلوم بیٹیوں کی داد رسی کی بجائے طاقتور ہاتھ ظالموں کو بچانے کے لیے حرکت میں آ جاتے ہیں۔سیاست، طاقت اور اقتدار مل کر درندوں کے پشت پناہ بن جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کا ہر دستور نرالا اور ہر چلن انوکھا ہے۔ ایماندار سرکاری ملازم ہو تو کھڈے لائن، ایمان دار تاجر ہو تو دیوالیہ، عزت دارہو تو کردار کشی، کسی لیڈر کی اقربا پروری اور ناجوازی کو سامنے لایا جائے تو حق اور سچ سامنے لانے والے کے خلاف اس کرپٹ لیڈر کے پیروکاروں کا جتھا مہم جوئی شروع کر دیتا ہے۔
آپ جب کہیں ایسے لوگ دیکھیں جو چور، جھوٹے، حرام خور، فراڈیے اورکرپٹ کا ساتھ دے رہے ہیں تو سمجھ جائیں کہ یہ انہی عورتوں کے
پیروکار ہیں جنہوں نے اپنی جھوٹی عزت کی خاطر باحیا اور غیرت مند عورت کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
جدید لہجے کے ابھرتے ہوئے شاعر شعبان المعظم نے کیا خوب کہا ہے کہ
تم مجھے صبر کی تلقین تو کرتے ہو مگر
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی طرف داری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button