کالم

عام انتخابات اور پرسکون ماحول

عام انتخابات 2024کا مرحلہ درپیش ہے اب دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن انتخابات کے حوالے سے انتہائی بے یقینی کی صورتحال ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں اور کسیے کریں؟ عام انتخابات ملتوی ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں خاص طور پر آرمی چیف کی تقریر جس میں انہوں نے بارہا 8فروری کے انتخابات کی بات کی ، کے بعد تو انتخابات کے التوا کے امکانات تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ بہرحال کچھ بھی ہو سکتا ہے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ عام انتخابات سے قبل جس طرح کی سیاسی گہما گہمی عام طور پر ہوتی ہے وہ اس مرتبہ نظر نہیں آرہی ۔ اس بار سیاسی جوڑ تور کا سلسلہ بھی عروج پر ہے کیونکہ بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کو توڑ کر کئی چھوٹی جماعتیں بنا دی گئی ہیں اب وہ چھوٹی جماعتیں اس قابل تو نہیں ہیں کہ انتخابات میں اکثریت حاسل کر کے حکومت بنا سکیںمگر ان کی اہمیت ضرور ہے ۔ کسی اکثریتی جماعت کے ساتھ مل کر اسے حکومت بنانے میںمدد فراہم کرنے میں ان جماعتوں کا اہم کردار ہو گا۔ یہ جماعتیں اہمیت اختیار کر گئی ہیں اور عام انتخابات میں اپنی چند نشستوں کے ساتھ یہ بڑی جماعتوں کی منظور نظر ہوں گی اور وہ جماعتیں انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لیے بھرپور زور لگائیں گی اور ان کی شرائط پر ان کے ساتھ اتحاد ہو گا ۔ اسی طرح تحریک انصاف کوبلے کا نشان نہ ملنے کا معاملہ بھی نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ تحریک انصاف ایک وفاقی اور بڑی سیاسی جماعت ہے جو ایک مرتبہ ملک پر حکومت بھی کر چکی ہے ، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی تحریک انصاف کی حامی اور عمران خان کی دیوانی ہے ، سچ کہیں تو تحریک انصاف نام ہی عمران خان کا ہے ان کے بغیر تحریک انصاف کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کے کارکنان ان کے علاوہ کسی اور رہنما اور اس طرح نہیں چاہتے جس طرح عمران خان کو چاہتے ہیں دیگر رہنماؤں کو بھی وہ عمران خان کی وجہ سے ہی برداشت کرتے ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کی مقبولیت نوجوانوں میں بہرحال موجود ہے۔ تحریک انصاف سے لاکھ اختلاف سہی لیکن عوام میں یا سوشل میڈیا پر ہر طرف ہمیں عمران خان کے دیوانے ضرور ملتے ہیںجو عمران خان کی دیاتنداری اور ملک سے وفاداری کی نہایت معصومانہ دلیلیں ضرور دے رہے ہوتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں حقیقت حال کا علم ہی نہیں ہے صرف عمران خان کی محبت میں یہ سب کچھ کہہ رہے ہیںلیکن جو بھی ہو عمران خان کی وجہ سے یہ لوگ بڑی تعداد میں تحریک انصاف سے وابستہ ہیں۔ اتنی بڑی سیاسی جماعت سے جب اس کا انتخابی نشان ہی چھین لیا گیا تو ملک میں ایک انتہائی عدم توازن کی فضا پیدا ہو گئی اور الیکشن کا سارا ماحول بھی بدل گیا ۔ عمران خان خود جیل میں ہیں جس کی وجہ سے دیگر جماعتوں کو کھلا میدان مل چکا ہے ۔ اگر عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو صبح شام جلسے کر رہے ہوتے تو دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی بھی نیندیں اڑ چکی ہوتیں ۔ مگر عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے باقی سب پرسکون ہیں اور انتخابی مہم میں بھی وہ گرمجوشی نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ نہ کوئی جلسہ ، نہ جلوس، نہ انتخابی ریلیاں ،نہ بینر، نہ کارنر مینٹنگیں۔ تحریک انصاف کے اپنے کارکنوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارا اپنا امیدوار کون سا ہے ایک ایک حلقے سے کئی کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیںاور سبھی خود کو تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر بتا رہے ہیںبلے کا نشان تو کسی کے پاس ہے نہیں جس کی وجہ سے مزید الجھن پیدا ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے اتنے قریب آجانے کے باوجود انتخابی گہما گہمی نہیں ہے عام انتخابات سے قبل کھمبوں اور بجلی کے پولز پر بے تحاشا بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں۔ ہر گلی محلے بلکہ اہم شاہراہوں پر بھی کوئی کھمبا یا بجلی کا پول ایسا نہیں ہوتا جس پر کسی امیدوار کا بینر نہ لگا ہو، کھمبے اوپر سے نیچے تک بینروں میں چھپے ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے یا غلط وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن یہ ہمارے ملک کی روایت ہے کہ بینرز آویزاں کرنا انتخابی مہم کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ اکا دکا بینرز دکھائی دے رہے ہیں جو سیاسی جماعتوںکی غیر سنجیدگی یا انتخابات کے انعقاد کی غیر یقنی کو واضح کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ خود اس بے یقینی کو ختم کریں اور کوشش کریں کہ کسی بھی طرح انتخابات کا انعقاد ہو اور کامیاب ہونے والی جماعت حکومت بنائے تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات کے التوا کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انتخابات جتنے ملتوی ہوتے جائیں گے ملک کے حالات اتنے ہی ابتر ہوتے چلے جائیں گے ۔ پہلے ہی نگران حکومت کی مدت کافی طویل ہو چکی ہے اب اسے ختم ہونا چاہیے اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل ہونا چاہیے جو پورے اختیارات کے ساتھ ملک کو مسائل سے نکالنے کی کوشش کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button