کالم

مایوسی اور امید

قوم کو مبارک ہو دوسری مرتبہ صدر ِ پاکستان منتخب ہونے والے آصف علی زرداری کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 202سے ان کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کے بلا مقابلہ منتخب ہو چکی ہیں یہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت، سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کی مضبوط گرفت کی ایک روشن مثال ہے جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ جمہوریت ان کے گھر کی لونڈی ہے جس کی بدولت ملک کی پارلیمانی تاریخ میں بیک وقت ایک ہی خاندان کے سب سے زیادہ افراد منتخب اسمبلیوں میں براجمان ہیں اب زرداری خاندان نے شریف خاندان کا ریکارڈ توڑ دیا۔ صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو کے این اے 207سے بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد صدر زرداری خود بطور صدر مملکت، صاحبزادے بلاول بھٹو اور بیٹی آصفہ بھٹواور بہنوئی منور تالپور ایم این اے جبکہ دونوں بہنیں ڈاکٹر عذرا اور فریال تالپور ایم پی اے منتخب ہوچکی ہیں دوسری طرف وزیراعظم شہبازشریف کے بڑے بھائی میاں نوازشریف، صاحبزادے حمزہ شہبازشریف رکن قومی اسمبلی جبکہ بھتیجی مریم نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں یوں خاندان کے سب سے زیادہ افراد کے ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہونے کے لحاظ سے صدر زرداری کا خاندان پہلے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف کا خاندان دوسرے نمبر پر ہے اقتدار اقتذار کے اس کھیل کے دوران مسائل کا ایک انبار ہم پر آن پڑا ہے مہنگائی نے عوام کی کمرتوڑکررکھ دی ہے سیاست،معیشت اور جمہوریت زبوں حال ہے ملکی معیشت کے حوالہ سے زیر ِ عتاب حکومت مخالفین کا دعوےٰ ہے کہ عوام سے وعدوں کرنے کے باوجودPDM کی حکومت IMF سے مزیدبھاری قرضہ لے کرملک کو مزید مقروض کر رہی ہے مزے کی بات یہ ہے کہ جو تنقید کرتے پھررہے ہیں وہ بھی اپنے دور ِ حکومت میںIMF سے قرضہ لینے کے لئے مرے جارہے تھے اور یہ سلسلہ اب تلک راز ہے یوں کشکول توڑنے کے وعدے محض وعدے بھی ثابت ہوئے اور شہباز حکومت IMF سے مذاکرات پہ مذاکرات کئے جارہی ہے ملک میںمہنگائی کا طوفان آیاہواہے ہرچیزمہنگی ہوگئی ٹیکسز کے اہداف پورے نہ ہوئے تو منی بجٹ آنا یقینی بات ہے کریانہ فروشوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے قانون سازی ہو گئی ہے جب نئے نئے ٹیکسز لگیں گے تو مزید لاکھوں پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے جائیںگے یہ بھی جمہوریت کا کمال ہے کہ نیب نے ملک کی درجنوںبااثر شخصیات آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، میاںشہبازشریف،حمزہ شہباز، سیدخورشید شاہ،عبدالعلیم خان،احسن اقبال،خواجہ سعدرفیق، خواجہ آصف ، مولانا فضل الرحمن کے خلاف شکنجہ کس دیا تھا جنہوں نے اپنے خلاف تمام کیس ختم کروا کر ایک نئی روایت قائم کردی ہے اب کوئی بھی بااثر شخصیت کا قانون بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قوم کو مہنگائی ،دہشت گردی اور
لوڈشیڈنگ سے نجات نہیں ملی اب سوئی گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا جا چکاہے جس سے عام آدمی کے لئے مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ان واقعات و حالات میں امید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی حالانکہ حکومت سے امیدیں وابستہ کرنا اچھی بات ہے دوسرے لفظوں میں اسے خوش فہمی بھی کہا جا سکتاہے یہ الگ بات ہے کہ امید گھپ ٹوپ اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنوئوںکی مانند ہوتی ہیں پاکستان بنانے کا خواب بھی ایک امید تھی جو اللہ کے فضل سے یوری ہوئی اب اس وطن کو پر امن ، خوشحال اور ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواب ہماری جاگتی آنکھیں اکثر دیکھتی رہتی ہیں اللہ کرے یہ خواب بھی شرمندہ ٔ تعبیرہو۔۔۔۔ایک خواب ہے اس ملک سے عوام کی محرومیاں دو رہوں اس مملکت ِ خدادادکو کوئی ایسا حکمران مل جائے جو قوم کی محرومیاں اور مایوسیاں دور کرنے کیلئے اقدامات کرے یہاںکی اشرافیہ اپنے ہر ہم وطن کو اپنے جیسا سمجھے کیونکہ یہ بات طے ہے پاکستان کو جتنا نقصان یہاں بسنے والی اشرافیہ نے پہنچایاہے کسی دشمن نے نہیں پہنچایا ہوگا پاکستان کے تمام مسائل اور عوام کی محرومیوںکے یہی ذمہ دارہیں یہ ان لوگوںنے اس ملک کو کبھی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے زیادہ اہمیت نہیں دی اس ماحول کے باوجود کبھی کبھی دل میں حسرتیں امڈ آتی ہیں، امیدیں جاگ اٹھتی ہیں اور ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لینے لگتی ہیں اللہ خیر کرے۔ اس بات کا بھی قلق ہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کہیںفرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں کہیں جمہوریت۔۔۔کہیں خلافت اور کہیں اسلام کے نام پراپنے ہم مذہب بھائیوںکے گلے کاٹے جارہے ہیں ۔۔۔ کہیںمعاشی استحصال ہورہاہے یاان کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں خودکش حملے، بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ایک الگ مسائل ہیں جنہوںنے پوری قوم کا جینا حرام کررکھاہے ا س میں کوئی شک نہیں پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازاہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کیلئے خرچ ہونی چاہیے ۔۔۔عوام کی حالت بہتربنانے پر صرف کی جانی چاہیے۔۔غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی کیلئے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کے لئے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے ۔ پو ری دنیا میںشاید سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوںکاہے جن کی آمدورفت کے موقعہ پر گھنٹوں ٹریفک جام رکھنا عام سی بات ہے اس دوران ایمبو لینسوںمیںمریضوںکی موت واقع ہو جائے،طالبعلم کو تعلیمی داروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو حکمرانوںکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں اور جب مایوسیاں حدسے زیادہ بڑھ جائیں انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس ملک میں امیر امیر تر ،غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے دعا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے ہم پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی،پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے حکمران بیورو کریسی ،اشرافیہ،قوم پرست،کرپٹ سب ذمہ دارہیں ہمیں اس خول سے باہر نکلناہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button