کالم

حکومت بھیک نہیں کلہاڑا دے

مہذب معاشرے میں حکومت عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے بہتر سے بہتر منصوبہ بندی کرتی ہے تاکہ عوام کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور قوم عزت و وقار کے ساتھ اپنا مقام برقرار رکھ سکے لیکن ہمارے ہاں ٹھوس اقدامات اور مستقل منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے دن بدن بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور دیکھا دیکھی عوام کی اکثریت نے اس کو بطور پیشہ اپنالیا ہیاور ہمارے ملک میں یہ وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے بڑے شہروں کے معروف چوکوں چوراہوں مارکیٹوں میں بڑی مساجد امام بارگاہوں کے سامنے بھیک مانگنے کے لیے بھاری رقوم دی جاتی ہیں اور اس دھندے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کئی اہم سرکاری عہدوں پر فائز شخصیات ان کی پشت پناہی کرتی ہیں۔جبکہ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے جلتی پر تیل ڈالا ہے اور ہر دور حکومت میں نئے نئے ناموں سے امدادی پروگرام جاری کیے جا رہے ہیں کہ کسی طرح غربت کو کم کیا جا سکے اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔حکومتوں کے سپورٹ پروگراموں کی وجہ سے دن بدن غربت میں کمی آنے کی بجائے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ عوام کی اکثریت نے محنت مزدوری کام دھندہ چھوڑ دیا ہے اور ہڈ حرام ہو گئے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کی طرف سے ملنے والی مالی امدادی رقوم وغیرہ پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے
ہیں۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت نے مختلف امدادی پیکج دے کر قوم کو گداگر بنا دیا ہے بجائے کاروبار کام دھندہ کرنے کے صبح ہوتے ہی خواتین اکثریت سے شناختی کارڈ ہاتھوں میں پکڑ کر گھروں سے نکل پڑتی ہیں اور پھر سارا سارا دن سپورٹ پروگرام مالی امدادی پروگرام آٹا چھاٹاپیکج پروگرام وغیرہ وغیرہ مختلف ناموں سے بنائی گئی حکومتی فرنچائز دفاتر کے سامنے کڑی دھوپ اور سخت سردی میں کھڑی ہو کر باری کا انتظار کرتی رہتی ہیں جبکہ مالی امداد حاصل کرنے والی خواتین کے مردوں کی اکثریت نے محنت مزدوری چھوڑ دی ہے اور خانہ بدوش مردوں کی طرح گھروں میں سوئے رہتے ہیں اور شام کو بیوی ماں بہن بہو بیٹی کی طرف سے لائی گئی رقوم سے انجوائے کرتے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ امدادی پروگراموں میں اکثریت میں ایسے لوگ یا ان کی خواتین شامل ہوتی ہیں جو سرکاری ملازم یا صاحب حیثیت ہوتے ہیں وہ ان مالی امداد فراہم کرنے والی لسٹوں کا حصہ ہوتے ہیں جبکہ مساکین معذور یتیم بیوگان کا صرف نام استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ زیادہ تر ان امدادی پیکج کی رقوم کا حصہ تقسیم کار اہلکاروں سرکاری ملازمین فرنچائز دفاتر میں کام کرنے والے افراد حیلوں بہانوں سے سادہ لوح ان پڑھ خواتین سے چھین لیتے ہیں اگر حکومت غربت ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو بانی ریاست مدینہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی طرح غربت ختم کی اور کس طرح مانگنے والوں کو روزگار فراہم کیا ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سوال کیا کہ مجھے کچھ دیا جائے یعنی میری مدد کی جائے میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمھارے گھر میں کیا ہے اس نے عرض کی ایک کمبل ہے اور ایک پانی پینے کے لئے پیالہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا لے کر آ وہ اپنے گھر
سے دونوں چیزوں کو لے آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ان چیزوں کو خریدتا ہے ایک شخص نے ایک درہم قمیت لگائی آپ نے دو تین دفعہ فرمایا اس سے زیادہ کون دیتا ہے حتی کہ ایک شخص نے دو درہم قمیت لگائی آپ نے دونوں چیزیں اسے بیچ دیئں اور اس انصاری سے فرمایا بازار جا ایک درہم کا کھانا اور ایک درہم کا کلہاڑا خرید لا وہ شخص بازار گیا اور کلہاڑا خرید کر لے آیا آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ لگا کر فرمایا جنگل میں جا لکڑیاں کاٹ کر بازار میں فروخت کرو اور پندرہ روز بعد آنا وہ شخص پندرہ روز بعد آیا تو اس کے پاس دس درہم جمع ہو چکے تھے آپ نے فرمایا کہ جا بازار سے گھر والوں کے لیے کھانا اور کپڑے خرید لو کچھ دیر بعد اس شخص کے حالات بہت اچھے ہو گئے(سنن نسائی) دین اسلام ہمیں محنت اور ہاتھ سے رزق کمانے کی تعلیم دیتا ہے اور ہاتھ سے محنت کرنے والے کو پسند کیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کبھی کسی سوال کرنے والے کو واپس نہیں کرتے تھے تاہم وہ بھی تندرست و توانا افراد کو نہیں دیتے تھے حجتہ الوداع کے موقع پر دو افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ اس وقت صدقات تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی مانگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر دونوں پر ڈالی دیکھا کہ تندرست و توانا اور کمانے کے لائق ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے تم دونوں کو بھی دے سکتا ہوں ۔ لیکن سن لو کہ اس میں کسی مال دار اور کمانے کے لائق تندرست و توانا کا کوئی حصہ نہیں(ابوداد) صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا کہ غنا یعنی غنی کون ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا جائز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس قدر جو اس کے لیے صبح وشام کی غذا کا کام دے ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن یا ایک رات اور ایک دن پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے (ابوداد)
کسی بھی قوم قبیلے ملک یا معاشرے کی ترقی کا انحصار اس کے ذرائع معاش پر بھی ہوتا ہے اگر معاشرے میں چوری ڈکیتی گداگری رشوت خوری اقربا پروری کا ماحول ہو تو وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ۔ایک اسلامی و فلاحی ریاست کا اولین فریضہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتی ہے اور کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہوتی ہے اور پیشگی بہترین منصوبہ بندی اور حکمت عملی اپناتی ہے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے بڑے سے بڑے خطرات اور ناگہانی حالات میں عوام کی حفاظت یقینی ہو اور عوام کو کم سے کم نقصانات کا سامنا کرنا پڑے اور عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں اور پر امن ماحول میں لوگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں اور اگر کبھی ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ عوام کو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو حکومت ایسے وسائل پیدا کرے جس سے لوگوں کو ضروریات زندگی پوری کرنے میں مدد ملے اور روزگار کے مواقع فراہم ہوں شہروں قصبوں دیہاتوں میں گھریلو صنعت کاری کو فروغ دیا جائے خواتین کو دست کاری کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں دور دراز علاقوں قصبوں میں کارخانے لگائے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کو روزگار کے مواقع مل سکیں اور قوم پھر سے محنت مزدوری کام دھندہ میں لگ جائے اور قوم کو معلوم ہو۔ کہ روٹی مفت نہیں ملتی ۔جبکہ معذور یتیم مساکین کی خوراک رہائش کا انتظام حکومتی ذمہ داری ہے کیونکہ جو قوم خود اپنے حالات بدلنے کی کوشش نہیں کرتی اس کے حالات کبھی نہیں بدل سکتے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے ترجمہ ۔ بیشک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا نہ کر ڈالیں ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو اپنی آپ حالت بدلنے کا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button