کالم

30مارچ جب کارواں شبیر صدیقی درگاہ حضرت بل کو مقبولی غسل دے چلا

آج جب علی گیلانی مرحوم کی نواسی اور حریت لیڈر الطاف شاہ شہید کی بیٹی اور اسی طرح شبیر شاہ کی بیٹی نے الگ الگ مگر ایک جیسے اعلان کیے ہیں کہ وہ کشمیر کی تحریک آزادی سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں ساتھ بھارت سے وفاداری کا اعلان کیا ہے تو مجھے آج 24مارچ 1996 اور 30مارچ کے 90اور 96کے دن یاد آ تے ہیں جب بھارت کی اسی مکاری کا بروقت ادراک کرنے والے سری نگر اور حضرت بل کے مقام پر تاریخ رقم کر گے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آ ج کا دن کوئی عام دن نہیں اج ویسا ہی تاریخی دن جیسے شیخ عبدالحمید کا یوم شہادت انیس نومبر گیارہ فروری کے بعد آج تیس مارچ کشمیر کا سب سے بڑا تاریخی دن ہے جب تیسرے رمضان جمعہ کے روز کشمیر کی تاریخ کا پہلا فدائی حملہ کر کے بھارتی فورسز کو واصل جہنم کرتے اشفاق مجید وانی اپنی دیرینہ خواہش روزے کی حالت اور جمعہ کا دن ہونے کو نہ صرف پورا کر بھیٹا بلکہ کسی عسکری تنظیم کا پہلا چیف کمانڈر بھی قرار پایا جو میدان کار زار میں امر ہوا اس کی راہ پر چلتے چھ سال بعد آج ہی شبیر صدیقی اپنے کارواں سمیت درگاہ حضرت بل کے مقدس مقام کو مقبولی غسل دے چلے اور تاریخ میں کشمیر کے امام حسین ٹھرے شہید صداقت قرار پانے والے شبیر صدیقی شیخ حمید کے بعد جے کے ایل ایف کے دوسرے سیاسی سربراہ تھے جہنوں نے اپنے چیف شہید جرات جنرل بشارت رضا کے ہاتھ سے گری بندوق اٹھائی اور تاریخ رقم کر دی مقبول بٹ کی لہو رنگ تحریک کو سرخرو کرنے میں اشفاق مجید وانی حمید شیخ کے ساتھ ڈاکٹر عبدالاحدگرو بھی آج سے ایک روز بعد جان قربان کر چلے مقبول بٹ کے ساتھ اشفاق مجید وانی حمید شیخ ڈاکٹر گورو شبیر صدیقی کے ساتھ جو سنہری حروف سے لکھا جانے والا نام ہے وہ جنرل بشارت رضا کا ہے جو آج تیس مارچ کو اٹھائیس سال قبل معرکہ کربلا کی تقلید کرتے سری نگر میں تاریخ رقم کر کے امر ہوا گاندربل کے علاقہ تیل بل سے تعلق رکھنے والے جنرل بشارت رضا نے باباے قوم مقبول بٹ کے بٹ خاندان میں جنم لیا گھر والوں نے نثار بٹ نام رکھا مادروطن پر نثار ہونے والے اس جنگجو نے بشارت رضا کا تعارفی نام رکھا مجاہدین نے جنرل بشارت رضا کا نام مشہور کر ڈالا 1993میں جب جے کے ایل ایف کے ہیڈ کوارٹر حضرت بل کو بھارتی فورسز نے ایک طویل دورانیے کے محاصرے میں لیا تب ادریس خان شہید اس محاصرے کے پناہ گزینوں کے ترجمان بنے تو ناہب ترجمان بشارت رضا بنے پہلی بار بشارت رضا کا نام سامنے آ یا جنگی جنون رکھنے والے بشارت رضا سیاست کار ی سے الگ ہی رہے جب یاسین ملک سے بھارت کے سیانے سیز فائر کا معاہدہ کروانے کامیاب ہوئے تب جے کے ایل ایف کے عسکریت پسند باغی ہو گے ان باغیوں نے جنرل بشارت رضا کو اپنا نیا چیف کمانڈر مقرر کر کے اس سر نو عسکری کاروائیاں شروع کر دیں بشارت رضا اور ان کے ساتھیوں نے تنظیمی ہیڈ کوارٹر بھی اپنے ماتحت رکھ لیا یاسین ملک اور ان کے ہم خیال برسوں سے قائم ہیڈ کوارٹر خالی کر کے الگ جگہ منتقل ہو گے بشارت رضا کی عسکریت پسند وں نے دستار بندی کی حضرت بل کے علاقہ میں بندوق برداروں نے ریلی نکال کر نو منتخب کمانڈر انچیف جنرل بشارت رضا کی دستار بندی کے ساتھ قائد تحریک امان للہ خان صاحب کی تصویر کو سلامی دی کشمیر میں پہلی مرتبہ کسی عسکریت پسند باغی کو یوں سر عام سلامی دی گئی تو بھارت کے پالیسی ساز ہل گئے حضرت بل کے تاریخی پس منظر کے باعث دوست اور دشمن ہم خیال بن گے کہ حضرت بل پر بشارت رضا کا قبضہ کیسے ختم ہو نماز جمعہ اور دیگر مزہبی اجتماعات میں لوگ شبیر صدیقی اور ان کے کارواں کے موقف کو سن کر ایک انقلاب برپا کرنے نکلے خاموش لوگ فعال ہو گے جموں سے کا کا حسین جیسے بانی بھی بشارت رضا کے پشت بان بن چلے منظور صوفی منظور الاسلام مبارک حسنی جیسے جیلوں سے خط لکھ کر وفاداری سامنے لائے کشتواڈ میں جب ہزار وں جب لوگ شبیر صدیقی کی آ واز میں آ واز ملا کر نوے کی تحریک زندہ کر گئے تو پھر کربلا سری نگر سجانے کی صف بندی ہوئی کوفے والے بھی ملے اور بھاری بھر اسلحہ کے ساتھ درگاہ حضرت بل پر حملہ کر دیا بشارت رضا کا عہد تھا کہ وہ اشفاق مجید وانی اور حمید شیخ کا جانشین ہے اس نے خود میدان میں مورچے سنبھال لیے قابضین اور منافقین ایک ہوئے دن بھر جھڑپیں جاری رہئیں شام کو بی بی سی اور وائس آ ف امریکہ نے ایک جیسی خبر دی کہ چھ برس بعد کشمیر میں طویل جھڑپ ہوئی جو دن بھر جاری رہئی جس میں کمانڈر انچیف جنرل بشارت رضا ملٹری ایڈوائزر سلمان یاور نکہ بھائے سمیت گیارہ سنیئر کمانڈر شہید ہوئے مگر اٹیمی طاقت بھارت پھر بھی درگاہ حضرت بل پر قابض نہ ہو سکا جے کے ایل ایف کی تاریخ میں اشفاق مجید وانی اور حمید شیخ کے بعد تیسرا چیف کمانڈر میدان کارزار میں شہید ہوا اس کی جگہ اس کے قائد شبیر صدیقی نے بندوق اٹھائی بھارت ان کے سامنے مقابلہ نہ کر سکا اور ایک ہفتہ محاصرے کے بعد جہاز سے گن شپ پاوڈر چھڑک کر حضرت بل کے ہیڈ کوارٹر کو خاکستر کر گیا وقت کا حسین شبیر صدیقی ساری قیادت کے ساتھ کربلا والوں کی طرح شہید ہو گے آ ج تیس سال بعد مجھے بشارت رضا سرخرو نظر آ تا ہے مگر حیرت بھی ہوتی ہے بشارت رضا جو بھارتی فورسز کے ساتھ مقابلہ میں شہید ہوا جس کو بھاری بھر قوت کے ساتھ کمانڈر انچیف بنایا گیا وہ کیوں نا پسند
ہے۔۔۔۔اگر کمانڈر انچیف غلط تھا تو شبیر صدیقی صدر کیسے حق پر تھے شبیر صدیقی کو تو امان للہ خان صاحب سے بشارت رضا نے صدر بنوایا شوکت شاہ جو صرف یاسین ملک کے دوست تھے اور ایک مزہبی تنظیم کے سربراہ تھے جے کے ایل ایف کے پلیٹ فارم سے ان کو تحریکی ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے مگر اپنے ہیرو جنرل بشارت رضا کا نام لینا گناہ جانا جاتا ہے۔۔۔۔میں دعوے سے لکھتا ہوں کہ اگر بشارت رضا یاسین ملک کے خلاف بغاوت نہ کرتے تو شبیر صدیقی کھبی بھی ایسا نہ کرتے مگر جب بشارت رضا نے ایسا کردیا تو شبیر صدیقی نے اس کو کامیاب بنا نے کو ایمان کا حصہ بنا لیا شبیر صدیقی کو بشارت رضا سے اتنی محبت تھی کہ جب بشارت رضا شہید ہوئے شبیر صدیقی نے بندوق خود اٹھالی پہلی بار کسی تنظیم کے سربراہ اور وہ بھی اعلی تعلیم یافتہ دینی سکالر نے بندوق اٹھا کر اپنی وفا کا ثبوت دیا پھر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ جے کے ایل ایف شبیر صدیقی کو تو خراج پیش کرتا ہے مگر بشارت رضا کا نام بھی نہیں لیا جا رہا اگر کہیں لیا اور لکھا بھی جائے تو سب سے آخر جلیل اندرابی نعیم بٹ کی قربانی بھی تاریخ کا حصہ مگر جس طرح سارا جہاں افضل گرو بن جائے وہ مقبول بٹ کا حشر اشیر نہیں اسی طرح اشفاق مجید وانی حمید شیخ ڈاکٹر عبدالاحدگرو شبیر صدیقی کے بعد اگر کسی کا مرتبہ اور مقام ہے وہ جنرل بشارت رضا کا ہے حسد بغض زاتی پسند نا پسند پر اس کو تاریخ سے الگ نہیں کیا جا سکتا اس کا مقابلہ صرف ایک صورت میں کیا جا سکتا ہے اس سے بڑی قربانی دی جائے میں دعوے سے مگر چیلنج کر کے لکھ رہا ہوں کہ اب کشمیر کی تاریخ میں جس طرح دوسرا مقبول بٹ جنم نہیں لے سکتا ۔
اسی طرح اور کوئی اشفاق مجید وانی حمید شیخ ڈاکٹر عبدالاحدگرو شبیر صدیقی اور بشارت رضا بھی نہ پیدا ہو سکتا ہے نہ ویسا بن سکتا ہے اب جتنی بڑی قربانی بھی دی جائے تاریخ ان ناموں کے بعد ہی اور مقام دے گی۔۔۔۔۔۔میرا محبت بھرا سلام بشارت رضا اور اس کے ساتھی شہدا سے لیکر شبیر صدیقی اور ان کے کارواں کے لیے۔۔۔۔بشارت رضا اس لیے عظیم ترین ہے کہ وہ بابائے قوم مقبول بٹ کے نام لیوا کمانڈروں میں سے آخری چیف کمانڈر تھا جس نے مقبول بٹ کی طرح بندوق اٹھائی تو مرتے ہوئے بھی بندوق اس کے ہاتھ میں تھی خود مر رہا تھا اور دشمن کو مار رہا تھا۔بقول شاعر یہ بلند رتبہ جس کو ملنا تھا مل گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button