کالم

خواجہ خواجگان تاجدارِ تصوف حضرت خواجہ سید نور محمد گیلانی تیراہی چوراہی

خواجہ خواجگان، غوث زماں، قطب الاقطاب، نور العرفا،حضرت خواجہ سید نور محمد گیلانی چوراہی رحمة اللہ علیہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے وہ جلیل القدر اور عالی مرتبت بزرگ ہیں جن کی للہیت و تقوی شعاری کی برکت سے ان گنت لوگ عصیاں شعاری کی زندگی سے تائب ہو کر صالح مسلمان بنے اور کتنے ہی خوش بخت لوگ اس آفتاب ولایت سے کسب ضیاء کر کے ولایت کے مقام رفیع پر فائز ہوئے۔ آپ مجاہد اسلام حضرت خواجہ خان محمد گردیزی کے پوتے اور عارف ربانی، حضرت خواجہ سید فیض اللہ گیلانی تیراہی کے فرزند ارجمند ہیں۔ سن 1179ھ/ 1765ء میں قبائلی علاقہ تیراہ کے گاؤں اخوند کوٹ، تیز ئی شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے تاجدار اور ہندوستان و افغانستان کی عظیم روحانی شخصیت ہیں۔ آپ کے والد گرامی نے دو شادیاں کی تھیں بڑی بیوی سے ان کی ایک بیٹی تھی مگر چھوٹی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی۔ بڑی بیوی نے منت مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے فرزند عطا فرمائے تو ساری زندگی 100 نفل روزانہ ادا کروں گی۔ چھوٹی بیوی نے بھی منت مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں بڑی بیوی کو پیش کر دوں گی تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹی بیوی کو بیٹا عطا فرمایا۔ جب حضرت خواجہ سید فیض اللہ گیلانی رحمہ للہ علیہ کوخبر ہوئی تو آپ تشریف لائے اور فرزند کو گود میں لیکر گھٹی کے طور پر اپنی زبان منہ میں ڈال دی اور استخارہ کے ذریعے آپ کا نام نامی اسم گرامی سید نور محمد رکھا اور فرمایا: ”مجھے تین دن پہلے اس کی بشارت ہو چکی ہے کہ فرزند نہایت صاحب کمال اور حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کا نائب اور روحانی وارث ہوگا اللہ تعالی اس سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کو فروغ دے گا۔” آپ کا سلسلہ نسب بارہ واسطوں سے غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور چھبیس واسطوں سے مولائے کائنات حضرت سید نا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ خود بہت بڑی عالمہ فاضلہ تھیں اس لئے آپ نے ابتدائی کتب اور قرآن مجید کی تعلیم ان ہی سے حاصلکی۔ بعد میں اپنے وقت کے عظیم عالم حضرت علامہ مولا نا محمد امین خان نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ سے علوم متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا صاحب آپ کے والد گرامی کے جلیل القدر خلفاء میں سے تھے۔ آپ کو علم لدنی سے بھی حصہ وافر حاصل ہوا اور ایسا شرح صدر ہوا کہ دقیق سے دقیق مسئلہ کو چند منٹوں میں حل فرما دیتے تھے۔ اپنے والد گرامی سے بیعت ہو کر باطنی فیض کی منزلیں تیزی سے طے کیں اور انھوں نے چہار سلاسل عالیہ میں فیض عطاء فرما کر دستارخلافت سے نواز کر اپنا جانشین مقررفرمایا۔ آپ اپنے والد گرامی کے اسلام کی و وصال با کمال کے بعد مسند ارشاد پر فائز ہوئے اور تقریباً اسی سال تک تیز ئی شریف (تیراہ) میں خلق خدا کی رہنمائی اور دستگیری فرماتے رہے۔ آپ نے تبلیغ اور اشاعت دین کے لئے پورے افغانستان و ہندوستان کا سفر کیا، لاکھوں کی تعداد میں لوگ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلموں کو کی دولت سے مشرف فرمایا سینکڑوں طالبان حق کو آپ نے معرفت خداوندی عطاء فرمائی۔ آپ کی ذات و والاستودہ صفات سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کو وہ دوام حاصل ہوا کہ جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے۔ آپ کا فیض پورے افغانستان و ہندوستان میں پھیل گیا اور دور دراز سے لوگ آپ کی بارگاہ عالی وقار میں حاضر ہو کر فیض یاب ہونے لگے۔آپ جملہ اقوال و افعال، حرکات و سکنات، خوردونوش، سفر وحضر غرضیکہ تمام امور میں اتباع سنت کو مد نظر رکھتے اور اپنے مریدین محبین، متوسلین اور خلفاء کو بھی سنت نبوی پر کار بند رہنے کی تلقین فرماتے اور سنت کے خلاف کوئی بات گواران گوارا نہ فرماتے۔ آپ کے اخلاق انتہائی اعلیٰ تھے آپ خلق عظیم کا پیکر اور اخلاق اخلاق محمدی کا پر تو تھے۔ آپ کی مہمان نوازی کی شہرت ہر سو تھی، دستر خواں پر امراء و غربائی، نادار وضعیف، صوفیاء و علماء غرض ہر طبقہ فکر کے صاحبان حاضر ہوتے۔ آپ کے در اقدس پر آنے والا بھی خالی نہ جاتا اپنے علم ولایت سے اس کی حاجت جان جاتے اور سوال سے بڑھ کر عطاء فرماتے۔ سیخی ایسے کہ جو گھر میں ہوتا راہ خدا میں قربان کر دیتے، لوگوں کی دن دینی و دنیاوی حاجات حاجات کوی لو پورا کر نانفلی عبادت سے بہتر سمجھتے اور مخلوق خدا کی خدمت میں ہر وقت مصروف رہتے۔ زہدو تقوی اور علم وفضل می با میں ایسے.، با کمال تھے کہ آپ کی مجلس پاک میں بیٹھنے والے زمانے کے امام بن گئے۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے قرآن مجید کے کچھ نسخے تحریر فرمائے جن میں سے ایک چورہ شریف موجود ہے بندہ نے زیارت کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔ آپ کے آخر زمانہ قیام میں ولی خان نامی شخص آپ کا مخالف ہو گیا اور آپ کے خلاف پروپیگینڈا کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ جب اس کی جرات بڑھی تو آپ نے اسے طلب فرمایا اور پیار سے سمجھایا مگر ما یا مگر وہ اپنی حرکت سے باز آ ـ انے کی بجائے آپ کا اور بھی زیادہ مخالف ہو گیا۔ وہ آپ کی ذات والا صفات کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا لہذا اس نے کچھ لوگوں کو ساتھ ملا کر آپ کے عقیدت مندوں کو لوٹنا شروع کر دیا جو آپ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے دور دراز سے آرہے ہوتے۔ جب یہ سلسلہ حد سے بڑھا اور آپ نے اپنے ارادت مندوں اور درویشوں کی تکالیف کو دیکھا تو آپ نے ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور سنت نبوی کی اتباع میں 1284 ھ تیراہ شریف سے چورہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی اور ایک بے آب و گیاہ ویران زمین کو علوم معرفت و حقیقت اور ولایت و فیضان مجددیہ کا ایسا مرکز بنا دیا کہ جس سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد فیض یاب ہوئے اور ہوتے رہیں گے ان شائاللہ سرزمین چورہ شریف پر قریبا ڈیڑھ سال تک فیوض و برکات عام فرمانے کے بعد 13 شعبان المعظم 1286ھ بمطابق 17 نومبر 1869ء کو وصال با کمال فرمایا۔ آپ کا مزار پر انوار چورہ شریف میں مرجع خلائق ہے۔ جہاں آج بھی لاکھوں افراد فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کے چار فرزند تھے، جن کے اسماء گرامی یہ ہیں: سید احمد گل گیلانی، سید فقیر محمد گیلانی، سید دین محمد گیلانی اور سید شاہ محمد گیلانی۔ آپ کے چاروں فرزند صاحبان علم و عرفان تھے۔ ان حضرات نے اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے میں صرف کردی۔آپ کے صاحبزادے سید فقیر محمد گیلانی کے ایک پوتے جنکا نام سید سرور شاہ گیلانی ہے، آپ اپنے والد بزرگوار کے حکم پر کشمیر تشریف لے گئے اور وادی کشمیر میں مظفرآباد کے ایک ملحقہ گاؤں برمالہ شریف میں قیام پذیر ہوگئے. پیر سرور شاہ صاحب عظیم فقیہ اور ولی کامل تھے، آپ نے ساری زندگی دین اسلام کی ترویج میں صرف کر دی اور آپ کی موجودگی سے اس خطہ کی فضائیں آج بھی اللہ ھو کی صداؤں سے گونج رہی ہیں. آپ کیچھ بیٹے ہیں اور انکی اولاد آج بھی برمالہ شریف قیام پذیر ہے۔ اس وقت آپ کی خانقاہ پر انجینئر پیر سید بدرالاسلام گیلانی بطور سجادہ نشین خدمت دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button