کالم

آئی ایم ایف 11 ارب ڈالر ملکی معیشت

پاکستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی پالیسی کی ضرورت ہے جو ملک کو درپیش مختلف چیلنجوں سے نمٹ سکے دنیا کی سب سے بڑے مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف نے ایک بار پھر پاکستانی حکومت کو 11 ارب ڈالر کی قرض جاری کرے گا آئی ایم ایف سے سود پر قرض ملنے پر حکومت اور حکومت کے حمایتی لوگ خوشی محسوس کر رہے ہیں لیکن یہ قرضہ کن سخت شرائط اور کن اسان شرائط پہ ملے گا کتنا ٹیکس کتنا پیٹرول بجلی گیس مہنگے ہوں گے اس پر حکومت نے ایک لفظ تک نہیں بولا البتہ ائی ایم ایف نے خود بتایا کہ بجلی پٹرول مہنگا کرنے کی ہماری شرائط حکومت نے مان لی ہیں جس میں آنے والے دنوں میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا اور جو لوگ پہلے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے ان کے لیے مزید مشکلات آ کھڑی ہوں گی ایسے حالاتوں میں صنعت کا پہیہ تھوڑا بہت چل رہا ہے اس کا پہیہ چلنا بھی مشکل ہو جائے گا ایک بار پھر ملک کی انڈسٹری پر مزید بوجھ آن پڑے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک اس طرح قرض لینے سے ترقی کرتے ہیںآئی ایم ایف کی قسط جاری ہونے کے بعد یکم جولائی کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہوگا پاکستان واحد ملک ہے جو قرض لینے پر خوش ہوتا ہے جو بعد میں قرض اتارنے کی بھی سکت نہیں رکھتا کیونکہ وہ پہلا قرضہ نہیں دے سکتے اور حکومت دوسرا قرضہ لے رہی ہے کوئی سمجھائے ہمارے حکمرانوں کو جس کی وجہ سے ہم قرضوں کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں ان قرضوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ عوام مہنگائی کہ بوجھ میں پھنس جاتی ہے آئی ایم ایف سے قرض لینے والوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے آج تک ایک بھی ملک آئی ایم ایف کے پروگرام پر چل کر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا چند ارب ڈالر کی خاطر پاکستان کی 24 کروڑ عوام کو مشکلات میں ڈالنا مناسب نہیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے سیاست دکھانی شروع کی ۔اپوزیشن نے قرضہ روکنے کے لیے واشگنٹن میں احتجاج کیا جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان کو 11 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کر دیا اب یہ قرضہ عوام کی فلاح کے بجائے ملک کے بااثر افراد کی نظر ہو جائے گا عوام بچاری اس کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک جائے گی کاش اگر آ ئی ایم ایف نہ ہوتا تو پاکستانی عوام خوشحال زندگی بسر کر رہی ہوتی اور کسی بھی حکومت کی آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے پر نظر نہ پڑتی اگر بجلی گیس پیٹرول مہنگا ہوگا تو ڈالر بھی اونچی اڑان میں اڑے گا جس کا سارا نقصان پاکستان کی انڈسٹری اور عوام کو برداشت کرنا ہوگا جس سے پاکستان کی معیشت ایک بار پھر لڑکھڑا جائے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا آئی ایم ایف کی قسط کے بعد پاکستان یہ قرض کی رقم واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ویسے بھی آئی ایم ایف پاکستان کو پیسے دینے سے انکار نہیں کرے گا کیونکہ اس کی وجہ سے مشکل میں پھنسے قوم سیدھی بھی ہو سکتی ہے مگر آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث روٹی کھانی مشکل کرنا ہوتا ہے پاکستان کوئی بانجھ ملک نہیں ہے صرف اشرفیہ کے چنگل میں آئی ہوئی ریاست ہے جو اس کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے اور کوئی پوچھنے اور روکنے والا نہیں آئی ایم ایف کی غلامی کا پھندہ ملک اور قوم کے گلے میں ڈالنے کی بجائے 17 ارب ڈالر کی وہ مراعات ختم کریں جن کی نشاندہی اقوام متحدہ کر چکی ہے ،ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کا 55ارب روپے کا مفت پیٹرول بجلی بند کریں جب تک اشرفیہ کی لوٹ مار ختم نہیں ہوگی ملکی معاشی بحران جاری رہے گا ہماری مروجہ سیاسی معاشی نظام سے سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے خرابی کہاں ہے اور یہ کیسے درست ہوگی ہر حکومت اس عزم کا اظہار بھی کرتی ہے مگر پھر دیدہ نہ دیدہ مجبوریوں کا شکار ہوجاتی ہے 1968سے2023 تک پاکستان 23 بار آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لے چکا ہے ہر بار مالیاتی پیکج کے حصول کا مقصد معیشت کو درپیش چیلنجوں سے آزمودہ ہونا بتایا ہے مگر ملکی اقتصادیات کی سمت درست کرنے کی بجائے مالیاتی اداروں کے سہارے ملک کو چلانے کا آسان راستہ ڈھونڈ لیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اقتصادی ڈھانچے کو درست نظام عالم سے ہم اہنگ کے بجائے نئے قرض کے حصول پر مرکوز ہو گئی ایسے میں معاشی بگاڑ تو ایک طرف پورا مالیاتی نظام جمود کا شکار ہو گیا نتیجہ ہمارے سامنے ہے 25 کروڑ آبادی کا ملک جس کی لگ بھگ دو تہائی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے عالمی امداد اور قرض کا محتاج ہو چکا ہے بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے نصف سے کم قرضہ حاصل کیا اور ساری توجہ اپنی معیشت کی سمت درست کرنے پر مرکوز کی آج وہ پائیدار معیشت ہے اس طرح بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو 1993 میں آئی ایم ایف کو خیرباد کہنے کے بعد دو ہزار تک تمام قرضوں کی قسط ادا کرنے کے بعد اپنے معاشی معاملات میں خود مختار ہو چکا ہے اور پاکستان ایک کنزیومر مارکیٹ عالمی مالیاتی محض خامیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے انہیں دور کرنا ہمارا کام ہے اس وقت پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے ناقابل برداشت سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ قرضوں ادائیگی کی شرح بھی جی ڈی پی کہ لحاظ سے بلند ترین سطح پر ہے معاشی صورتحال کو مضبوط کرنے کے لیے ایک جامعہ مضبوط پلان کی ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی اتفاق رائے بھی ضروری ہے معیشت پر دو برس میں جو اثرات پڑے ہیں اس میں عوامی مشکلات میں اضافہ ہوا ،پاکستان قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملک ہے اگر معاشی استحکام کی پائیداری حکمت عملی کے ساتھ دستیاب وسائل سے استفادہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم موجودہ ریلیف کو عالمی مالیاتی ادارے سے آخری رحوع نہ بنایا جا سکے
اگر ہماری موثر حکمت عملی سے آئی ایم ایف سے نجات حاصل ہو گئی تو ہم بہت جلد عالمی مالکوں کی صف میں کھڑے ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button