کالم

یہ خونی کھیل کب ختم ہو گا!

ملک بھر میں میں پتنگ بازی کا خونی کھیل دھڑلے سے جاری ہے، یہ خونی کھیل جہاں ہماری ثقافت ، معاشرتی استحکام اور اسلامی اخلاقیات کو بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے ، وہاں آئے روز کسی نہ کسی انسان کی زندگی کا چراغ بھی گل کرتا چلاجارہا ہے،گزشتہ روز فیصل آباد میں ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان گلے پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور سر گودھا میں ایک بچہ پتنگ لو ٹتے ہوئے چھت سے گر ِکرجاں بحق ہو گیا، یہ ان شہر میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ،اس سے قبل ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں ،لیکن اس خونی کھیل کو انتظامیہ روکنے میں کا میاب ہو پائی ہے نہ ہی کمیو نٹی اپنا کوئی مثبت کردار اداکرپارہی ہے ، اس لیے ہی پتنگ بازی کاخونی کھیل ایک کے بعد ایک گھر برباد کرتا چلا جارہا ہے ۔اگر دیکھاجائے تو پتنگ بازی کا کھیل جو پہلے کبھی عوام کو باقاعدہ خوشی پہنچانے کا باعث بنتا تھا، اب لوگوں کے لئے موت کا پروانہ بن چکا ہے ،کیونکہ اب جرائم پیشہ لوگ کیمیکل والی ڈور کا استعمال کر کے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ،اس لیے ہی آئے روز پتنگ بازی کے نتیجے سے اموات کی خبریں ملتی رہتی ہیں،پنجاب حکومت کی جانب سے پتنگ بازی پرسخت پابندی کے باوجو انتظامیہ عملدرآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے، یہ ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر سال متعدد معصو م بچے،بچیاں اور نوجوان قاتل ڈور کی زد میں آکر موت کی وادی میں پہنچ رہے ہیںاور درجنوں افراد ہسپتالوں میں داخل ہورہے ہیں ، اس پر پنجاب حکومت اظہار تشویش کرنے اور انتظامیہ دکھائوئے کی کاروائی کرتے ہوئے ماسوائے ایس ایچ او کو معطل کرنے کے کچھ بھی نہیں کر پارہی ہے ۔اگر اس بارے ضلعی انتظامیہ کے اعلی عہداروں سے پو چھا جائے تو اُن کے پاس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کار وائیوں کی ایک طویل لسٹ تیار ہو تی ہے ، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے قانونی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف نہ صرف بڑی تعداد میںمقدمات ر درج کیئے ہیں ،بلکہ گر فتاریاں بھی ڈالی ہیں، لیکن یہ نہیں بتا پاتے کہ ان سب کو سخت سزائیں بھی دلوائی گئی ہیں ، اگر ان سب کو ہی سخت سزائیں دلوئی جاتیں تو یہ لوگ کبھی دوبارہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت کرتے نہ ہی معصوم انسانی جانوں کا ایسے ضائع ہونا تھا ، اس ملک میں جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے یا قانون کی عملداری میں روکاوٹ آرہی ہے ،یہ قانون کے رکھوالوںکے ہی مر ہون منت ہے اور اُن کے ہی زیر سائیہ سب کچھ ہورہا ہے۔ایک سروے کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے مختلف علاقوں اور پنجاب کے سارے ہی بڑے شہروں کے باہر قائم فارم ہاؤسز میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پتنگ بازی کی جاتی ہے، چند شوقین مزاج افراد پتنگ بازی کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کرتے نظرآتے ہیں، جب کہ پتنگ بازی اور ڈانس پارٹیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن مقامی تھانوں کی پولیس سب کچھ جانتے ہوئے خاموش تماشائی بن کر ان با اثر افراد کی سرپرستی کرتی ہے، اس طرح ہی پتنگیں اور دھاتی ڈوریں کہاں بنتی ہیں اور کہاں سے فروخت ہورہی ہیں ، ضلعی انتظامیہ اور پولیس بخوبی آگا ہی رکھتے ہیں ، لیکن انہیں روکا جارہا ہے نہ ہی اپنا فرض ادا کیا جارہا ہے، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت انتظامیہ کاہی فرض ہے، اس لئے غیر قانونی طور پر پتنگیں اور مہلک ڈور تیار کرنے والوں کے ساتھ پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والوں اور پتنگ بازی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا، تاکہ لوگوں کی جان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے، ورنہ نجانے کتنے اورمعصوم لوگ ایسے ہی قاتل ڈور کا شکار بنتے رہیں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کو جہاںاپنا محاسبہ کرنا ہو گا ، وہاںاپنے فرض کی ادائیگی کو بھی یقینی بنانا ہو گا ،یہ معاملات پنجاب حکومت کے نمائشی بیانات واعلانات سے سدھر نے والے ہیں نہ ہی محض اظہار تشویش سے روکنے والے ہیں،اس کیلئے کچھ سخت عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے ، لیکن ا س کے ساتھ ہمیں بھی اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا ، ہمیں اپنے روئیوں پر بھی غور کر نا ہو گا ، یہ ہمارا اجتماعی رویہ بن چکا ہے کہ ہم اپنی انفرادی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں اور ہمارا جب بھی کوئی نقصان ہو تا ہے تو اس کا سارا ملبہ ہی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا پتنگ بازی کے خونی کھیل میں بھی ایسا ہی روئیہ دکھائی دیے رہا ہے،حکومت نے پتنگ بازی پر پابندی لگارکھی ہے اور اس پر انتظامیہ بڑی حدتک عمل کرانے میں کوشاں ہے ،مگر ہم بحیثیت اچھے شہری کیا کررہے؟ ہماری بھی کو ئی اخلاقی و قانونی ذمہ داریاںہیں ،لیکن ہم اپنی موج مستی میں معصوم لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ، یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہمیںیاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم آج اپنی موج مستی میںکسی کا گھر ویران کررہے ہیںتو کل یہ بربادی آپ کے اپنے گھر کی دہلیز بھی ضرور پار کرے گی ، پس کوئی ہے ،جوکہ ان باتوں پر زراغور کرے، کوئی ہے جوکہ اپنی ذمہ داریوںکا کچھ احساس کر ے ، اس احساس ذمہ داری سے ہی ایسے خونی کھیل کا خاتمہ ہو پائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button