قارئین محترم! مظلوم اور بے کس عوام اللہ کے آسرے پر دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ اس کے بر عکس اشرافیہ ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔اس وقت ملک عزیز میں مہنگائی کا جو طوفان برپا ہے اس میں اچھے خاصے سفید پوش انسان کا جینا محال ہو چکا ہے ۔ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ دھوپ کی شدت اور سردی کی حدت سے عاری دیہاڑی دار طبقہ کس طرح اپنے خاندان کو پالتا پوستا ہو گا؟ اس کے علاوہ تعلیم ،علاج،روزگار اوررہائش جیسی بنیادی ضروریات زندگی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ایسی صورتحال میں عوام میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور دہشت گردی کے واقعات جا بجا ہو رہے ہیں۔ اصل میں انتظامی امور کے ماہرین اور ملکی اندرونی نظام میں قانون کی بالا دستی کے ذمہ داران کے پاس کوئی ٹھوس اور واضح حکمت عملی سرے سے موجود ہی نہیں جسے Applyکر کہ ملک کی ابتر ترین صورتحال پر قابو پانے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔
قارئین ! دعاکریں جو میںآج قلمبند کر رہا ہوں وہ سب غلط ہو۔لیکن زمینی حالات بتا رہے ہیں کہ مفلسی،غربت،معاشی تنزلی اور نا انصافی زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتی۔ اس اداریے میں ماضی کے واقعات کی روشنی میں حال کا تجزیہ پیش خدمت ہے۔ شعور و آگہی والے احباب نہ پڑھیں تو بہتر رہے گا اور مجھ جیسے کوڑھ مغز بیشک سر کھپاتے رہیں اگر کچھ سمجھ آگیا تو ڈسپرین کھا لینا اور نہ سمجھ آیا تو اسے خدا کی مہربانی سمجھئیے گا کہ ہمارا وطن عزیز کس صورت حال سے دو چار ہے۔جس حساب سے لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور جو misunderstandingحکومت وقت اور عوام کے درمیان ہے لگ رہا کہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔لگ رہا ہے کہ ماضی میں پاکستان کے ساتھ بہت گھمبیر حالات بھی پیش آئے لیکن موجودہ صورت حال میں عوام اتنی بپھر چکی ہے کہ سر پر کفن باندھ کر ،موت ہتھیلی پر رکھ کر ظلم و نا انصافی کے خلاف میدان عمل میں کود چکے ہیں۔اور تاریخ گواہ ہے کہ جب عوامی انقلاب آتا ہے تو پھر اس کے آگے بڑے بڑے شہ زور گھٹنوںکے بل گر جایا کرتے ہیں۔اس کی مثال انقلاب ایران،فرانس،ترقی اور چین کی تاریخ سے بخوبی مل سکتی ہے۔قارئین!وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 77 برس ہونے کو ہیں۔ جس وقت یہ ملک بنایا گیا تھا تو ہمارے اسلاف نے کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ حتیٰ کہ گھر بار اور اولاد کی قربانیاں دے کر پاکستان قائم کیا گیا۔ کتنے سہاگ اجڑے۔کتنے بچے یتیم ہوئے۔ کتنی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی۔کتنے لخت جگر ان کے والدین کے سامنے مار دئیے گئے۔لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اپنے بسے بسائے گھر کھلے چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔اس سب کا نتیجہ تو یقینناً اسلام جمہوریہ پاکستان کا قیام کا باعث بنا۔ لیکن آنے والوں نے اس ملک کے ساتھ جو حشر کیا ساری دنیا کے لئے وہ باعث عبرت ہے۔ لیکن پاکستان کو دیمک کی طرح کھانے والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ دھڑا دھڑ اس ملک کو باپ کی جاگیر سمجھ کر اسے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر مار دھاڑ میں مصروف ہیں۔قارئین! جب ہر ہفتے،ہر مہینے اور حتیٰ کہ ہر روز عوام حکومتی پالیسیز کے خلاف دھرنے دینا شروع کر دیں،سڑکیں بلاک کرنا شروع کر دیں،اور سر عام حکومتی احکامات کی خلاف ورزیاں کریں تو اسے آپ بغاوت کہیں،خانہ جنگی کہیں یا اقتدار پر عوام کے قبضے کی سوچ کو مد نظر رکھیں تو یہ سب باتیں ایک ہی معانی کے ضمرے میں آتی ہیں۔ہمارے ملک کو کس کی نظر بد کھا گئی ،جس کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے اسلاف نے آخری درجے کی قربانیوں سے بھی گریز نہیں کیا،لیکن آج اس چھوٹے سے خطے یعنی آزاد کشمیر میں تقریبا خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان میں تو گزشتہ کئی سالوں سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ درپیش تھا لیکن اس خطے میں کافی حد تک امن و سکون تھا۔پھر ایسا کیا ہوا کہ اچانک عوام بھوکے شیروں کی طرح بپھر چکی ہے،اور ہر گلی،ہر محلے اور ہر شہر میں بد امنی کو فروغ مل رہا ہے اور ہر جگہ لوگ حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ logicتو ہر صورت ہو گی ،ورنہ کوئی ایک ضلع، ایک شہر یا ایک سب ڈویژن عوامی عتاب سے محفوظ رہتا۔ اس وجہ کو ڈھونڈنا اور اس کا سد باب کرنا اشد ضروری ہے ورنہ اقوام متحدہ کے پاس کشمیر آج بھی متنازعہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے،کہیں خدا نہ کرے کہ وہ ہو جائے جسے میں لکھنے سے بھی ڈرتاہوں۔اس میں بھی کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم حیثیت رکھتا ہے اور سوچی سمجھی سازش کے تحت بیرونی مخالف قوتیں یہ حالات پیدا کروا رہی ہوں تا کہ کوئی سپر پاور یا اس کا نمائندہ آ کر ادھر کا عنان اقتدار سنبھال لے۔بابا ئے قوم اور ان کے رفقاء نے اس ملک کو اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایک مظبوط قلعہ بنانے کا تصور مد نظر رکھ کہ اس قائم کیا۔ جس میں مسلمانان عالم اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ مگر کم بختوں نے آئو دیکھا نہ تائو اس کو مردار کی طرح نوچنا شروع کر دیا۔ ملک میں عموماً مارشل لاء کا نفاذ رہا۔ جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا، اور جو جمہوری نمائندے اسمبلی فلور تک پہنچے انہوں نے بھی غیر ملکی خارجہ پالیسی مرتب کی۔ بجائے اس کہ کہ وہ اپنے ملک کے عوام اور وسائل کو استعمال کر کے اسے دنیا کے بہترین ممالک میں شامل کرتے ہمارے منتخب عوامی نمائندوں نے بھی اس ملک کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ ان سب حالات کے نتیجے میں آج ملک عزیز کلاش ہے۔ غربت انتہاء پر ہے۔ جہالت کا زور و شور ہے۔ ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی سچوئیشن انتہائی بد حالی کے عالم میں ہے۔ بم بلاسٹ،خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ اس ملک کا مقدر بن گیا ہے۔رشوت،اقرباء پروری،کرپشن اس ملک کی پہچان بن چکی ہے۔کلرک سے لے کر بائیسویں گریڈ تک کا آفیسر ماسوائے چند کے کرپشن کے ایسے کاریگر ہیںکہ جائز کام بھی قائداعظم محمد علی جناح کے فوٹو والے کاغذ کے بغیر نہیں کرتے،سارے کے سارے محکمہ جات حرام خوری کی لت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کسی کو خدا کا خوف نہیں کہ کل اس نے اس کی عدالت میں جواب دہ ہونا ہے۔قارئین! آپ کو دلچسپ بات بتائوں اس ملک میں جتنا بڑا ہڈ حرام ہے وہ اتنے ہی بڑے عہدے پر متمکن ہے۔اور جتنا بڑا ایماندار ہے وہ گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہے چاہے اس کے پاس ٹیلنٹ کا انبار ہو۔ پتا نہیں کہاں سے ہمارے بھولے بادشاہ عوام لچے اور لفنگے تلاش کر کہ لے آتے ہیں اور انہیں اپنی تقدیر کا مالک بنا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں یہی لوفر اور بدمعاش عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں سے سرکاری گاڑیوں میں ایندھن بھر کہ اور ہوٹر لگا کر سرکاری پروٹوکول میں ان ہی عوام کا تیل نکالتے ہیں۔جب بنیاد ہی کرپشن پر رکھی جائے تو اس ملک کی عمارت سیدھی کیوں کر ہو سکتی ہے۔ یہی عوامی نمائندے اپنے عزیز واقرب کو جو کہ اس اہل نہیں ہوتے انتظامی اور دیگر با اختیار عہدوں پر تعینات کر دیتے ہیں جو کہ اپنے انہی کرپٹ بڑوں کی شہ پر عوام کو حقیر مخلوق سمجھتے ہوئے اپنے پاوئں تلے مسل دیتے ہیں۔کہتے ہیں کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا بعینہہ ہمارے عوام کو سچے اور کھرے لوگ ہضم نہیں ہوتے کبھی انگریز اور غیر مسلم عورتوں کے بستر کی زینت بننے والے قومی پالیسیز مرتب کرنے لگ جاتے ہیں۔ کبھی ملک کے سب سے کرپٹ جنرل اقتدار کی مسند پہ بٹھا دئیے جاتے ہیں۔ اور کبھی قاتل اور مفرور وزیر اور مشیر بنا دئے جاتے ہیں۔کبھی بی اے پاس وزیر تعلیم بن جاتے ہیںاور کبھی عوام کے خون پسینے کے ذریعے حاصل ہونے والے ٹیکس کے پیسوں سے کروڑوں روپے کی گاڑیاں بیرون ملک سے ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔یہ چھوٹا سا خطہ جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے جسے صرف ایک کمشنر اور دو ڈی سی صاحبان قانون کی بالا دستی کے لئے کافی ہیں،یہاں وزراء کی فوج ظفر موج اور مشیروں کی تعداد گن کر پوری نہیں ہوتی اور ان کے ساتھ جو دیگر آفیسران تعینات ہیں ان کا حساب ہی نہیں۔اس کے بر عکس دوسری جانب غریب ایک وقت کا کھانا مہیا کر کہ دوسرے وقت کو توکل علی اللہ پر گزارنے پر مجبور ہے۔
کبھی ڈرگ کا دھندہ کرنے والے صحت عامہ کے وزیر ہوتے ہیں۔ کبھی خوش شکل خواتین اعلیٰ سفارتی عہدے پر برا جمان کر دی جاتی ہیں۔ کبھی عطائی ڈاکٹرز ہسپتالوں کے انچارج بن جاتے ہیں۔ کبھی کارگل میں جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدلنے والے ملکی ہیرو بن جاتے ہیں۔ کبھی سو سو کیسوں والے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے لگتے ہیں۔ کبھی خارجہ پالیسی کی الف ب سے نا واقف وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھال لیتے ہیں۔
قارئین! مجھے بتائے کہ اس ملک کا غریب جو کہ نہ رشوت دے سکتا ہے نہ سفارش کرو سکتا ہے لیکن ہے الٹرا جینئس وہ کس کے آگے جا کہ فریاد کرے۔ وہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے، وہ کس کنوئیں میں ڈوب کر اپنی جان کی خلاصی پائے۔ کیا یہ لوگ اسے کبھی بھی حق دے پائیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس ملک کا لائق مفلس کبھی بھی اس ملک کے کسی کلیدی عہدے تک پہنط پائے گا کیونکہ وہاں پہلے سے ہی مگر مچھ بیٹھے ہوئے ہیں وہ ایماندار اور محب الوطن غریب کو کیونکر اس ملک کی تقدیر بلنے کا موقع دیں گے؟
اللہ سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز سے ان کالی بھیڑوں کے خاتمے کی کوئی سبیل بنائے تا کہ اہل افراد آ کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں اور اس کی قسمت کو بدلیں۔آمین۔
0 36 7 minutes read