کالم

وہ جو تاریک راہوں میں مارا گیا

اس کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک چمک دیکھی جاتی تھی۔ ایک انوکھی چمک، زندگی اور جذبے سے بھرپور چمک۔ گھونگریالے بالوں کی ایک لٹ ماتھے پر پڑی رہتی۔ چھ فٹ قد، پہلوانوں جیسا ڈیل ڈول اور آواز میں کھنک و گھن گرج کا امتزاج۔ وہ پنجابی فلموں کا ہیرو لگتا تھا۔ مختلف چینلوں کے نمائندے مائیک اور کیمرے اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے۔ کوئی اس سے ڈائیلاگ سنانے کی فرمائش کرتا تو کوئی مختلف گانوں اور ترانوں پر اداکاری کرنے کو کہتا تھا۔ وہ سادہ مزاج اور بھولا تھا۔ فوراً ان کی فرمائش پوری کر دیتا۔ اسے دیکھنے اور سننے والے تالیاں بجاتے، واہ واہ کرتے اور اس کی تعریفیں کر کر کے اس کے جذبوں کو تازہ دم رکھتے تھے۔ وہ بھی اپنے ”چاہنے والوں” کی تعریفوں اور دادِ بے داد کو سچ سمجھتے ہوئے خود کو فلمی ہیرو سمجھنے لگتا۔ اسے کیا پتا تھا کہ یہ ”مقبولیت” اسے ایک دن موت کی اندھیری وادیوں میں لے جائے گی اور اس کے ”چاہنے والے” اس کی موت پر افسوس کرنے کی بجائے اس کی لاش کو چیک سمجھ کر کیش کروانے کی کوشش کریں گے۔
پتا نہیں وہ کون سی گھڑی تھی جب ہمارے ملک کے لاتعداد نوجوانوں کی طرح ظلِ شاہ کو بھی عمران خان کی باتیں سن کر ان سے پیار ہو گیا۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ کوئی کام کاج بھی نہیں کرتا تھا۔ ہم اسے دماغی طور پر کمزور نہیں بلکہ بھولا بھالا جوان کہیں گے۔ ضعیف والد کا سہارا بننے کی بجائے ان پر بوجھ بنا ہوا تھا۔ شاید اس میں کوئی کام سیکھنے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ اس کی عمران خان سے محبت بڑھتے بڑھتے عقیدت اور جنون میں تبدیل ہو گئی۔ جب عمران خان زخمی ہونے کے بعد زمان پارک منتقل ہوئے تو وہ ان کی گلیوں کا فقیر ہو گیا۔ یار کا در اس کے لیے والدین کے گھر سے زیادہ پیارا ہو گیا۔ وہ پروانہ وار عمران خان کے گھر کے گرد ہمہ وقت منڈلاتا رہتا۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس کا محبوب اسے شرفِ ملاقات بخش دے۔ اپنے دیدار کے شربت سے اس کی پیاس بجھا دے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار وہ پی ٹی آئی ورکرز سے اکثر کیا کرتا تھا۔ وہ ایک سچا پجاری تھا جو اپنے دیوتا کی نظرِ التفات کے لیے ہر لحظہ اس کے نام کی مالا جپتا رہتا تھا۔ اس کی چاہت، اس کا عشق سچا تھا۔ اس کے لیے اس کا سب کچھ عمران خان ہی تھا۔ ایسے جنونی چاہنے والے خوش بختوں ہی کو میسر آیا کرتے ہیں۔ وہ تین ماہ سے اپنے محبوب کی گلیوں کی خاک ہو گیا تھا۔ سخت سردی کی راتیں اور ٹھٹھرتے دن اس نے محبوب کی گلیوں میں گزار دیے۔ صرف اس آس پر کہ کبھی تو دیوتا کی چشمِ کرم اس پر بھی وا ہو گی۔ اسے معلوم تھا کہ دیوتا کی نظر سے لے کر اس کے جسم تک کی مسافت کئی صدیوں پر محیط ہے مگر وہ ثابت قدمی سے ڈٹا ہوا تھا۔ اور پھر 8 مارچ 2023 کا دن آ گیا۔ وہ دن جب عمران خان نے میدان میں نکلنا تھا۔ ظلِ شاہ کو اطمینان اور خوشی تھی کہ دیدار نہ بھی ہو سکا تو خیر ہے، محبوب کے قافلے میں شامل ہونے کا اعزاز تو مل جائے گا مگر وہ اس اعزاز سے بھی محروم رہا۔عمران خان کو میدان میں نکلنا تھا وہ نہ نکلے۔ ورکرز سڑکوں پر مار کھاتے رہے مگر عمران خان گھر سے نہ نکلے اور پی ٹی آئی کی دیگر لیڈرشپ ریلی میں شرکت کے لیے زمان پارک بھی نہ پہنچی۔ شاید ورکرز کا امتحان لینا مقصود تھا جس پر دستیاب ورکرز بہرحال پورا اترے۔ ظلِ شاہ بھی دیگر ورکرز کے ساتھ میدان میں ڈٹا ہوا تھا۔ صبح جب ہسپتال میں اس کی کچلی ہوئی لاش ملی تو اسے جاننے والوں کو ایک لمحے کے لیے تو سکتہ ہو گیا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ پولیس نے شدید تشدد کر کے اس کو مار ڈالا ہے۔ وہ جو تین ماہ تک اپنے محبوب کی گلیوں کی خاک بنا رہا مگر اس کی ایک نگاہ کا حق دار نہ ٹھہرا تھا یکایک اپنے محبوب کا محبوب بن گیا۔ اس کی زندگی میں تو عمران خان نے اسے اہمیت نہ دی تھی لیکن اس کی موت کے بعد اس پر پوری تقریر کر ڈالی اور یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ خود راتوں کو اس کی دیوانہ وار صدائیں سنا کرتے تھے۔ یہ الگ بات کہ تب اس کی صدائیں غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کی جاتی رہیں۔ اس کی موت عمران خان کی سیاسی زندگی کے لیے آکسیجن جیسی تھی۔ خان صاحب نے ظلِ شاہ کے والد بزرگوار کو اپنی بارگاہ میں طلب کر کے حسبِ معمول ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر کر تعزیت بھی کی۔ اس منظر کی تصویر بنا کر سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو جاری کی گئی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ دوسری طرف حکومت پنجاب اور پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اس ویگو ڈالے اور اس کے سواروں کو سیف سٹی کیمروں کی مدد سے شناخت اور تلاش کر لیا جو ظلِ شاہ کی لاش کو ہسپتال چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ وہ ڈالا پی ٹی آئی کے عہدیدار کا نکلا جس کے ڈرائیور نے گرفتاری کے بعد بیان دیا کہ اس نے ظلِ شاہ کو سڑک کنارے اسی حالت میں مردہ پایا تھا اور اٹھا کر ہسپتال پہنچایا تھا۔ ڈرائیور کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے مالک کو وقوعہ کے بارے میں بتایا تو اس کی ملاقات عمران خان سے کروائی گئی جنہوں نے اسے شاباش دی اور خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ پی ٹی آئی پنجاب کی صدر یاسمین راشد اعتراف کر چکی ہیں کہ انہیں ویگو ڈالے کے مالک کا پتا چل گیا تھا مگر ان کی اور بھی مصروفیات ہیں اس لیے انہوں نے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا۔ پولیس کا موقف ہے کہ ظلِ شاہ کو دیگر چند کارکنان کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا جو دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ پیشاب کرنے کا بہانہ بنا کر اترا اور بھاگ پڑا، بھاگتے ہوئے موڑ پر وہ اس ویگو ڈالے سے ٹکرایا۔ اسے اسی ویگو ڈالے نے ٹکر مار کر ہلاک کیا ہے۔ حقائق کیا ہیں۔؟ ان پر ہنوز پردہ پڑا ہوا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ظلِ شاہ کو انصاف مل پائے گا؟ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ پی ٹی آئی نے اس کی موت کو کیش کروانے کی کوشش کی مگر اس کے خاندان کے واحد سہارے اس کے غریب والد کی مالی مدد کرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی۔ ظلِ شاہ اپنی جان دے کر سیاسی طور پر کیش تو ہوا لیکن اس کے جنازے میں آخری درجے کا کوئی لیڈر بھی شامل نہ ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے اپنے لیڈر کی خاطر اپنی جان قربان کی مگر جب اس کے والد نے عمران خان کی مرضی کی ایف آئی آر درج نہ کروائی تو وہ لیڈر اور پارٹی کے لیے غیر اہم ہو گیا۔ آج مارچ 2024 ہے۔ پارٹی لیڈرشپ تو دور کی بات ہے کسی پارٹی ورکر کو بھی ظلِ شاہ اپنی برسی پر یاد نہیں رہا۔ کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا۔فرق پڑا ہے تو اس کے خاندان کو۔ جو آج کسی کو یاد بھی نہیں ہے۔ یہ پیغام ہے ہر پارٹی کے ظلِ شاہ جیسے جنونی ورکرز کے لیے کہ آپ لوگوں کی حیثیت مچھلی پکڑنے والے کانٹے میں لگے کینچوے سے زیادہ نہیں ہے۔ جن لیڈروں کی خاطر جانیں دے رہے ہو ان کی اپنی اولادیں ان کی مشکل گھڑی میں کدھر ہوتی ہیں؟۔ کیا انہیں اپنے باپوں سے پیار نہیں ہوتا؟۔ یہ سیاست دان اپنے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں اپنے خاندان کی تمام خواتین اور حضرات کو شامل کیوں نہیں کرتے؟۔ اپنے جہاد سے اپنے خاندان کے افراد کو محروم کیوں رکھتے ہیں؟ آخر عام لوگ ہی ان سیاسی جنگوں کا ایندھن کیوں بنتے ہیں۔؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button