پاکستان کا شاندار اساسی نظریہ اسلام ہے جسکی روشنی میں دنیا کی عظیم الشان مملکت پاکستان مسلمانان برصغیر کی اجتماعی اور انفرادی کوششوں اور قربانیوں سے معرض وجود میں آئی۔ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کا مطالبہ اپنے دین ،یقین اپنی ہزار سالہ تہذیب اور اپنی خصوصی سیاست کی بنا پر اسلئے کیا تاکہ اس مملکت خداداد میں اللہ کے دین کی ترویج اور نفاذ کر سکیں ۔رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو پاکستان کی تشکیل گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس مملکت خداداد میں اس کتاب مقدس کا نظام ِ زندگی نافذ کیا جائے جو لیلتہ القدر میں نازل ہوئی اور ہم نے پاکستان کا مطالبہ اسی غرض سے کیا تھا کہ یہاں اسلامی نظامِ حیات نافظ کیا جائے گا ۔اس اعتبار سے 23مارچ یومِ پاکستان اللہ سے کئے ہوئے عہد کی تجدید کا بھی دن ہے۔بر صغیر میں مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک متواتر حکمرانی کی اور اس دوران غیر مسلموں کیساتھ نہایت اچھا اور بہتر سلوک روا رکھا۔ان کو اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں سے ملحقہ جائیدادیں بھی وقف کردیں تاکہ ان کی آمدنی سے وہ خود کفیل ہو سکیں ۔بعض بادشاہوں نے تو رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے حد کر دی ۔ہندئوں کے ہاں سے نہ صرف شادیاں کیں بلکہ اپنی بیویوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی تھی لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی انہوں نے سب کچھ بھلا دیا اور 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندئوں اور سکھوں نے آپس میں اتحاد کرلیا اور انگریزوں کو خوش کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں کو عروج پر پہنچا دیا۔اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف دونوں نے ملکر جدو جہد کا آغاز کیا اور سب سے پہلا نشانہ "اردو ” کو بنایا اور ان مخالفانہ سرگرمیوں کا دائرہ دن بدن وسیع تر ہوتا چلا گیا۔برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندئوں کو اُوپر اُٹھانے کی بے حد کوشش کی ۔مسٹر ہیوم نے انڈین کانگرس کی بنیاد رکھی اور مختلف تحریکوں کی صورت میں مسلمانوں کے حقوق پامال کئے جاتے رہے۔حضرت مجدد الف ثانی نے دو قومی نظریہ کی پہلے مبلغ کی حیثیت سے ثابت کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔اسطرح مسلمانوں میں علیحدہ قومی تشخص کا شعور بیدار ہوا اور اس سلسلہ میں نواب محسن الملک اور نواب سلیم اللہ خان کا کردار بیحد قابل ستائش ہے۔فاتح قوم کے اثرات و خصائص مفتوح قوموں کے جسموں تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کے دل و دماغ اور علم و فکر بھی مسخر ہوجاتے ہیں اور آخر کار انکو اپنے ملی شعائر ،قومی خصائص اور فکر و عمل کو خیر باد کہنا پڑتا ہے اور ان کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ فاتح قوم کی نقالی اوراندھی تقلید اور اتباع شروع کردیں ۔چنانچہ اس سلسلہ میں علما ء کرام نے اپنا کردار احسن طریقہ سے ادا کرتے ہوئے دینی مدارس کھولے اور اسلام کے صحیح نظریات کو مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ رکھا۔آگے چل کر ان دارلعلوموں نے تحریکوں کی شکل اختیار کرکے مسلمانوں کی عملی رہنمائی کی۔ان کے ساتھ ہی تعلیمی تحریکوں نے بھی تعلیمی ،سماجی،قومی،سیاسی خدمات سر انجام دے کر قومی سطح پر بہتر اثرات مرتب کئے۔اپنی عظیم روایات کے مطابق جب مذہبی جذبات سے سرشار ہوکر حصول آزادی کی تحریکیں چلائی گئیں تو برطانوی حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔اس دوران مسلمانوں کو بہت ہی نازک مراحل سے گزرنا پڑا لیکن اللہ پر توکل کرکے باہر نکلنے والوں کی ہر قدم پر غیبی امداد کیلئے کوئی نہ کوئی مرد حق علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کی صورت میں نمودار ہوا اور اس ہاتھ کو جھٹک دیا جو مسلمانوں کے قومی وجود کو ختم کرنے کے درپے تھا۔بنارس میں کانگرس کے اجلاس میںمسلمانوں کی نمائندگی کم ہونے سے ہندئوں کے حوصلے بڑھ گئے اور اُنہوں نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایک تحریک چلائی جسکا مقصد یہ تھا کہ ہندئوں کے علاوہ دیگر اقوام کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جن میں مسلمان سر فہرست تھے۔مسلمانوں کی آنکھیں کُھل گئیں اور اُنہوں نے محسوس کیا کہ اگر مسلمان اپنا جداگانہ تشخص تسلیم کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پورے ملک پر ہندو قابض ہوجائیں گے۔آل انڈیا مسلم لیگ کے معرض وجود میں آنے سے یہ مقصد حاصل ہوگیا۔کانگرس کے مقابلے میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلی گئی۔جو چودہ نکات حکومت برطانیہ کو بھیجے گئے وہ مسٹر جناح کے چودہ نکات کے نام سے مشہور ہوئے۔ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے سیاسی معاملات میں بھرپور حصہ لے کر سردار محمد شفیع کے ساتھ ملکر مسلمانوں کا نقطہء نظر اتنی خوبصورتی سے پیش کیا کہ سائمن کمیشن نے جداگانہ انتخابات کو برقرار رکھنے کی سفارش کردی۔علامہ اقبال نے 1930ء میں آلہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس میں دو قومی نظریے کے دو ٹوک وضاحت کردی اور مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا”مجھے تو نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اُس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کریں”در حقیقت دو قومی نظریہ اسلامی نظریہ ہے وہ اسلئے کہ واضح الفاظ میں آیا ہے کہ کافروں کا دین الگ اور مسلمانوں کا دین الگ ہے۔بلا شبہ پاکستان کا اساسی نظریہ اسلام ہے جو یہاں بسنے والے مسلمانوں کی بناء اتحاد ہے۔پاکستان کا دنیا کے نقشہ پر نمودار ہونا عظیم جذبہ ایمانی کا مظہر ہے۔ورنہ کون کہہ سکتا تھا کہ بیک وقت برطانوی سامراج اور ہندو اکثر یت کی مشترکہ مخالفت کے باوجود بر صغیر کی مسلمان اقلیت اسلام کے نام پر پاکستان بنانے میں کامیاب ہو سکے گی۔پاکستان کے معرض وجود میں آجانے کے بعد بعض نا عاقبت اندیش عناصر جو اساسی نظریہ پر ایمان نہیں رکھتے۔پاکستان کا مطلب لا الہ الا للہ کی مو جودگی میں کئی دوسر ے نظاموں کی طرف نگاہیں لگاکر بیٹھے ہیں اس اساسی نظریہ کی آبیاری کی بجائے اسکا پھل کھانے کو تو تیارہیں مگر اندرہی اندر اُسکی جڑ یں کاٹنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے ۔تحزیب کا ری اور بین الاقوامی سازشوں کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا پھر بھی اکابرین کی آنکھیں نہ کھلیں۔ ضرورت اس ا مرکی ہے کہ ملک کا با شعور اور محب وطن طبقہ ماضی کے تلخ حقائق کو سامنے رکھ کر تمام اختلافات کو بھلا کر مملکت خداداد پاکستان کو اس شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش کرے جو اسکی بقا اور ترقی کیلئے ناگزیز ہو۔
0 42 4 minutes read