کالم

بھیک سے مزدوری بہتر ہے

اچانک ہی کچھ لوگوں کے اندر غریبوں کا درد جاگ اٹھا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر گندم سستی کروانے کے لیے متحرک ہو رہے ہیں۔ جانے یہ لوگ اس وقت کیوں کسی اندھیرے غاروں میں خوابِ خرگوش میں مست ہوتے ہیں جب کسان ہاتھ میں پیسے پکڑے مارا مارا پھر رہا ہوتا ہے لیکن اسے کھاد دستیاب نہیں ہوتی۔ چار ہزار روپے والی بوری سات ہزار کی بلیک میں خرید کر لے جاتا ہے تو کھاد لگانے کے چند دن بعد اس کا رزلٹ دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ کھاد جعلی تھی۔ جعلی بیج، مہنگی بجلی اور مہنگا تیل اس کی لاگت کو کئی بڑھا رہا ہے اور پیداوار متاثر کر رہا ہے مگر اس کسان کی مشکلات کا کسی نے کبھی نہیں سوچا۔ آج کسان کے معاشی قتل کی سازشیں کرنے والے مڈل مین کے پھیلائے سازشی جال میں پھنس کر کسان مخالف مہم چلانے والے وہ بھکاری ہیں جو مفت آٹے کی لائنوں میں اپنی خواتین کو لگا کر خود سوشل میڈیا پر دانشوری بگھار رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں غربت سے بھی بڑا مسئلہ مس مینیجمنٹ ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی ہم مس مینیجمنٹ کا شکار قوم ہیں جو اپنے ہاتھوں خود کو تباہ کر رہے ہیں۔ سستے یا مفت آٹے کی قطاروں میں لگ کر پہروں ذلیل ہوتے رہتے ہیں مگر ان قطاروں سے نجات حاصل کرنے کا کسی نے کبھی نہیں سوچا۔
چند روز بعد گندم کی فصل کی کٹائی شروع ہونے جا رہی ہے۔ آج سے ایک دہائی پہلے تک یہ رواج عام تھا کہ شہروں یا بڑے قصبوں کے رہائشی کم آمدنی والے خاندانوں کے سربراہ دیہات میں پہنچ کر زمینداروں اور کاشتکاروں سے بات پکی کر آتے کہ اتنے ایکڑ گندم کی کٹائی ہم کریں گے۔ انہیں گندم کی کھڑی فصل دکھا دی جاتی کہ یہ تین، چار یا پانچ ایکڑ گندم کٹائی کے لیے آپ کو دی جاتی ہے۔ کٹائی شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے وہ پورا خاندان تیاری مکمل کر لیتا۔ پسی ہوئی مرچیں، گھی، پیاز وغیرہ جیسی چیزوں کا بندوبست کر لیا جاتا۔ چارپائیاں، بستر وغیرہ گدھا گاڑی پر لادے جاتے اور پورا خاندان گائوں میں اپنے رشتہ داروں یا واقف کاروں کے پاس عارضی طور پر شفٹ ہو جاتا۔ جن کے عزیز یا جاننے والے نہ ہوتے وہ کھیتوں میں ہی کسی کونے پر عارضی ٹھکانہ بنا لیتے۔ اگر گائوں کا فاصلہ ان کی مستقل رہائش سے چار پانچ کلومیٹر تک کا ہوتا تو وہاں شفٹ ہونے کی بجائے روزانہ گھر سے ہی پورا خاندان کھیتوں میں پہنچ جاتا۔ سارا دن گندم کاٹی جاتی جس میں چھوٹے بڑے سب حصہ لیتے۔ عصر کے بعد کٹی ہوئی گندم کی پُولیاں (گٹھڑیاں) بنائی جاتیں جس کے لیے سُبڑے (رسے) کھیت مالک کی طرف سے مہیا کیے جاتے۔ شام تک اس کام سے فارغ ہو کر گندم کاٹنے والا خاندان اپنے گھر یا عارضی ٹھکانے کی راہ لیتا۔
گندم کاٹنے کی مزدوری دو طرح سے طے کی جاتی تھی۔ ایک طریقہ تو یہ ہوتا کا گندم کاٹنے والا سارا دن گندم کاٹتا اور شام کے وقت مزدوری کے طور پر جتنی گندم ایک ہی پھیرے میں وہ اٹھا کر لے جا سکتا لے جاتا یا ایک تگڑی پَنڈ (گانٹھ) مزدوری کے طور پر اسے دے دی جاتی تھی۔ اس طرح کی مزدوری پر گندم کاٹنے والے کو لاوا کہتے تھے۔ مزدوری کی اس قسم کو لائی کہا جاتا تھا۔ مزدوری طے کرنے کی دوسری قسم یہ ہوتی تھی کہ کٹی ہوئی فصل کا بیسواں حصہ بطور مزدوری دیا جاتا تھا۔ مثلاً اگر بیس گانٹھیں فصل کاٹی گئی تو ان میں سے ایک گانٹھ بطور مزدوری مل جاتی تھی۔ یہاں پر مزدوری کرنے والے ایک چالاکی یہ کرتے تھے کہ ایک گانٹھ نسبتاً بڑی باندھ لیا کرتے اور اسے بطور مزدوری اٹھا لیتے۔ زمیندار سب کچھ سمجھتے تھے مگر چشم پوشی کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بڑا جگرا اور حوصلہ دیا ہوتا ہے۔ جب فصل کٹ جاتی تو مزدوری کرنے والا خاندان کسی سے بیل مانگ کر اپنی فصل کی گہائی کرتا۔ توڑی (بھوسہ) فروخت کرتا اور گندم گھر لے جاتا جو سال بھر کھانے کے کام آتی۔ تھریشر مشینوں کے آنے کے بعد کاشتکار کی گندم کے ساتھ ہی مزدور بھی اپنی گندم کی گہائی تھریشر سے کروانے لگے۔ پھر اس میں مزید تبدیلی آ گئی۔ اب مزدور صرف گندم کی فصل کاٹنے کے بعد باندھتے ہیں اور ان کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اب مزدوری کے طور پر کاشتکار یا زمیندار یا کاشتکار سے اسے فی ایکڑ پانچ من گندم مل جاتی ہے۔ گندم کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے گندم کاٹنے والے کو ایک ایکڑ گندم کٹائی کا موضہ بیس ہزار روپے کی گندم کی صورت میں ملتا ہے۔ چار پانچ افراد پر مشتمل گھرانہ بیس سے پچیس من گندم آسانی سے حاصل کر لیتا ہییعنی وہ چند دن کی مزدوری سے اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی گندم حاصل کر لیتا ہے۔ جو اس خاندان کے لیے سال بھر کی ضرورت کے لیے کافی ہوتی ہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آٹے کی طویل قطاروں کی وجہ سے حکومت کو کوسنے کی بجائے اگر جھوٹی انا اور اسٹیٹس کو ایک طرف رکھ کر کم آمدنی والے لوگ گندم کی کٹائی اپنے خاندان کے ہمراہ شروع کر دیں تو ناصرف ان کو معاشی فائدہ ہو گا بلکہ آٹے کی قطاریں بھی ختم ہو جائیں گی۔ تقریباً ہر گھر میں پورے سال کی ضرورت کے لیے گندم موجود ہو گی۔ اگر گھر میں روٹی پک جائے گی تو وہ مرچوں یا پیاز کے ساتھ بھی کھائی جا سکتی ہے۔ آٹے کی لائنوں میں لگ کر دیہاڑی ٹوٹنے سے جو معاشی نقصان ہوتا ہے اس سے بھی بچ جائیں گے اور ذہنی کوفت سے بھی نجات ملے گی۔ ایک دہائی پہلے تک جب لوگ ماڈرن نہیں ہوئے تھے اور گندم کی فصل کاٹنے کو عار نہیں سمجھتے تھے تو ہمیں ملک بھر میں کہیں آٹے اور راشن کی قطاریں نظر نہیں آتی تھیں۔ یہ بھی جدید دور کی دین ہے کہ لوگوں نے عزتِ نفس کی قربانی دے کر مزدوری پر بھیک کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔
یاد رکھیے! کاشتکار ہارویسٹر اور دوسری مشینری کی طرف شوق سے نہیں بلکہ مجبوری کے تحت آیا ہے۔ کیونکہ لوگوں نے کھیتوں میں کام کرنا عار
اور کارخانوں میں مزدور کرنا فخر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ کاشتکار کو اب لیبر نہیں ملتی جس کا حل جدید مشینری کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ مشینری کام تو جلدی کر دیتی ہے مگر گندم اور بھوسے کا بہت ضیاع ہوتا ہے۔ اگر کاشتکار کو گندم کی کٹائی کے لیے مطلوبہ افرادی قوت مل جائے تو وہ اس سے فائدہ ضرور اٹھائے گا۔
ہمتِ مرداں مددِ خدا، حکومت کو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بھیک میں ذلت کا شکوہ نہیں کیا جاتا۔ جب بھیک کے لیے کوئی نکلتا ہے تو کہیں سے بھیک، کہیں سے گالیاں اور کہیں سے دھکے بھی ملتے ہیں۔ بھیک کو حق سمجھ کر خود کو بھکاریوں کی صف میں شامل کروانے کے لیے عزتِ نفس کی قربانی پہلی شرط ہوتی ہے۔ اپنی عزتِ نفس کو آٹے اور راشن کی قطاروں کی بھینٹ مت چڑھائیے۔ غیرت مند کما کر کھاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button