کالم

اک زرداری سب پہ بھاری

پاکستانی سیاست میں آصف علی زرداری کی مسلسل” سیاسی فتوحات ” پر پیپلز پاٹی کے کارکنوں نے ” اک زرداری سب پہ بھاری” کا نعرہ لگایا گیا اس نعرے کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو چڑانے کے لئے اس نعرہ کا اسی طرح ورد کرتے ہیں جس طرح وہ” جئے بھٹو اور بے نظیر بے قصور” کے نعرے لگاتے رہے پیپلز پارٹی کے اجتماعات میں اب بھی ”جئے بھٹو” کا نعرہ لگا کر کارکنوں کا خون گرم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے دی گئی تو طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی کے کارکن ”بھٹوہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں ” کا نعرہ لگا کر اپنی شرمندگی کا اعتراف کرتے رہے حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری کے لئے نیا نعرہ متعارف کرا گیا ”بلاول زرداری شیروں کا شکاری”آصف علی زرداری پاکستانی سیاست میں انتہائی متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں بے نظیر بھٹو زندہ تھیں تو اس وقت بھی آصف علی زرداری کو ان کے سیاسی مخالفین ان کو مختلف ناموں سے پکارا کرتے لیکن شدید ترین مخالفت کے باوجود آصف علی زرداری نے”پولیٹیکل سروائیو ” کیا بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے دوران انہیں ”مرد اول” کا اعزاز حاصل رہا لیکن بے نظیر بھٹو کی زندگی میں آصف علی زرداری کا پیپلز پارٹی میںکوئی نمایاں مقام نہیں تھا 27دسمبر2007 ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہادت کے بعد انہوں نے اپنے صاحبزادے بلاول زرداری کو جہاں پارٹی کا چیئرمین بنا دیا وہاں خود شریک چیئرمین بن بیٹھے اگرچہ آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن پہلی بار انہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد براہ راست پارٹی کی کمان سنبھالنے کا موقع ملا انہوں نے بلاول زرداری کے نام میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے نسبت کے حوالے سے بھٹو کا اضافہ کر دیا آصف علی زرداری کم وبیش 11سال تک جیل رہے ان کی زندگی کا قیمتی وقت جیل یا جلاوطنی میں گذرا آصف علی زرداری کا کمال ہے متنازعہ شخصیت ہونے کے باوجود انہوں نے پیپلز پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی پارٹی میں مخالفین کو نکال باہر کیا یا انہیں اپنی تابعداری پر مجبور کر دیا آصف علی زرداری کی شخصیت کی کردار کشی کی جاتی رہی لیکن وہ اپنے راستے کے کانٹے چنتے ہوئے صدر مملکت کے منصب تک پہنچ گئے کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا آصف علی زردار ی 2008ء میں پاکستان کے ایک طاقت ور صدر بن جائیں گے آصف علی زرداری سیاسی جوڑ توڑ اور مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی کے دوران مئی2006کو لندن میں ”میثاق جمہوریت” پر دستخط کئے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے آصف علی زرداری نے اس معاہدے کے تحت مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھایا 9مارچ2008کو نواز شریف اور آصف علی زرداری نے شراکت اقتدار کے معاہدے ‘ ‘اعلان مری” پر دستخط کئے 24رکنی وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے9وزراء نے پرویز مشرف سے سیاہ پٹیاں باندھ کراٹھایا جاوید ہاشمی نے پرویز مشرف سے حلف لینے انکار کر دیا وفاقی کابینہ میں چوہدری نثار علی خان کو سینئر وزیر کا درجہ دیا گیا اعلان مری کے تحت 29اپریل2008تک ججوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بحال کیا جاناتھا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے ججوں کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو ڈیڑھ ماہ بعد مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی حکومت سے الگ ہو گئی لیکن اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی بجائے حکومت کی حمایت جاری رکھی آصف علی زرداری نے وعدے پورے نہ کرنے کے باوجود نواز شریف سے راہ رسم ترک نہ کئے ان کی نظریں ایوان صدر پر لگی ہوئی تھیں 7اگست2008ء کو اسلام آباد میں زرداری ہائوس میں مسلم لیگ (ق) کے سوا ملک کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کو صدر مملکت کے منصب سے مستعفی ہونے الٹی میٹم دے دیا بصورت دیگر ان کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا 18اگست2008ء کو پرویز مشرف نے تحریک مواخذہ کے دبائو میں آکر استعفاٰ دے دیا آصف علی زرداری کے ایوان صدر کا مکین بننے کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور ہو گئیں وہ 6ستمبر2008ء کوصدر منتخب ہو گئے لیکن انہوں نے ججوں کی بحالی سے انکار کر دیا انہوں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو ججوں کی بحالی کے معاہدہ سے بری الزمہ قرار دے دیا کہ” یہ کوئی قرآن و صحیفہ تو نہیں کہ اس پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے وکلاء تحریک نے ججوں کی بحالی کے لئے 9مارچ2009کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) ، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اس تحریک کا حصہ بن گئیںپیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں گرنر راج نافذ کر کے شہباز شریف کی حکومت ختم کر دی لیکن لیکن تحریک کے نتیجے میں 16مارچ2009 ء کو اسے ججوں کو بحال کرنا پڑا پھر اسی چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کو تگنی کا وہ ناچ نچا یا کہ اسے دن میں بھی تارے نظر آگئے یوسف رضا گیلانی خط نہ لکھنے کے جرم میں اسی چیف جسٹس کے ہاتھوں نا اہل قرار دے دئیے گئے بہر حال 2013ء میں اپنی آئینی مدت مکمل ہونے پر آصف علی زرداری کو باوقار طریقے سے ایوان صدر سے رخصت کیا گیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو متحارب سیاسی قوتیں ہونے کے باوجود اکھٹے ہونے پر مجبور ہوتی رہیں 2014کے عمران خان کے 126روزہ دھرنے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن)کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور نواز شریف کی حکومت گرنے نہیں دیا عمران خان کی فسطائی حکومت نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہونے پر مجبور کردیا2019میں قائم ہونے والا یہ اتحاد 10اپریل 2022کو عمران خان کی حکومت کو نہ صرف گرانے میں کا میاب ہوگیا بلکہ انہیں اڈیالہ جیل تک پہنچا کر دم لیا 16ماہ تک بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ کا منصب انجوائے کرتے رہے پوری دنیا گھوم آئے لیکن 8فروری2024ء کے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی وزیر اعظم بننے کی ”معصومانہ” خواہش نے ایک بار پھر
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلے پیدا کر دئیے آصف علی زرداری کی” خاموشی” اور نواز شریف کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی ”بے جا تنقید” کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اور انتخابی نتائج نے ایک بار پھردونوں جماعتوں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے بلاول بھٹو کی وزیر اعظم بننے کی خواہش کا خون ہو گیا ان کی بجائے آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کی مدد سے دوبارہ ایوان صدر میں داخل ہونے میں کا میاب ہو گئے گو کہ وہ علامتی صدر ہیں لیکن آصف علی زرداری کا دوسری بار سویلین صدر بننا غیر معمولی سیاسی واقعہ ہے عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ میں داخل ہو گئی ہے جو شہباز شریف کو پارلیمنٹ میں کام کرنے دے گی اور نہ ہی صدر آصف علی زرداری 415ووٹ حاصل کر کے پاکستان کے14ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پارٹنر شپ کتنے دن چلے گی پیپلز پارٹی زیادن تک حکومت سے باہر نہیں رہ سکتی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button