کالم

جنگلات کا عالمی دن ترجیحات ،چیلنج اور ہماری ذمہ داریاں

جنگلات کی اہمیت مسلمہ ہے گزشتہ چند برسوں سے اس حوالے سے دنیا بھر میں ایک نئی حساسیت نے جنم لیا ہے جس کے اثرات پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے اور اسی وجہ سے کرہ? ارض پر حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جنگلات بارشوں کے زیادہ برسنے کا اہم سبب ہیں اور یہی بارش خوراک کی زیادہ پیداوار کا ذریعہ ہے۔ یکایک ماحولیات کامسئلہ ساری دنیا کے لئے اولین ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔ کیونکہ تمام بڑے شہر تیزی سے سبزے سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے مسئلے پر تیسری عالمی جنگ کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ بدلتے موسموں نے لوگوں کو ماضی پرست (Nostalgic)َ بنا دیا ہے۔ پروین شاکرنے کہا تھا:
کل رات جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
ایک تعریف کے مطابق جنگل زمین کے ایسے قطعہ کو کہا جاتا ہے جہاں بڑی تعداد میں درخت ہوں۔ جنگلات کی ماحولیاتی اہمیت مسلمہ ہے اور انسانی معاشرے کی بقا کا تصور ان کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔ اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (UNFAO) کی رپورت کے مطابق ہر سال دنیا میں موجود 18 کروڑ ہیکٹر رقبہ پر موجودہ جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اگر یہ روش جاری رہی تو گھنے جنگلات یعنی (Rain Forests) اگلے سو سال میں ختم ہو سکتے ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر جنگلات کا عالمی دن دنیا بھر میں 30 جنوری کو منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے باسیوں کو اس امر سے آگاہی دی جاتی ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول، شہری ترقی، معیشت اور انسانوں کو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے۔ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ بڑے اور پر ہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمی تغیرات (Climate Change) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔ پاکستان کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے جہاں پر جنگلات کی شرح 4 فیصد سے کم ہوتے ہوتے اب 2 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ حالانکہ عالمی مسلمہ معیارات کے مطابق کسی بھی ملک کے کم از کم 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے ہماری معیشت و معاشرت پانی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہے بے دریغ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجود Ozone کی تہہ کمزور پڑتی جا رہی ہے جس سے کینسر جیسے مہلک امراض میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اسی وجہ سے سال 2015 میں کراچی میں قیامت خیز گرمی کی لہر (Heat Wave) آئی جس سے ایک ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہواپاکستان میں جنگلات سے مختلف قسم کے اشیاء حاصل کیے جاتے ہیں جن میں لکڑی،طب،لیٹکس،فیول وڈ اور کاغذ جیسے اہم اشیا شامل ہیں، اس کے علاوہ جنگلات بہت سے انسانوں اور جانوروں کے خوراک کا ذریعہ بھی ہے۔ جنگلات جانوروں کے زندگیوں کو تحفظ دیتے ہیں اور انسانی صحت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیںجو علاقے جنگلات کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ان میں باقی علاقوں کے بہ نسبت بیماریاں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات ماحول سے آلودگی جیسے ناسور سے ماحول کو بچاتے ہیںپاکستان میں جنگل بانی (forestry)، پاکستان کا ایک اہم شعبہ ہے۔ پاکستان میں جنگل بانی لکڑی،کاغذ،لیٹکس اور طب جیسے دیگر اہم اشیاء کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کے کْل رقبے کا صرف 4 فیصد جنگلات ہیں جو زیادہ تر شمالی حصے میں واقع ہیںجنگلات کے فائدے بے شمار ہیں جس میں اولین تو آکسیجن کا پیدا کرنا ہے جو سانس لینے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ درخت زرعی زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں سیلاب سے بچاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ انسانوں کے استعمال کے لئے فرنیچر اور جلانے کی لکڑی کا ذریعہ ہیں۔ حیواناتی اور نباتاتی زندگی کی پناہ گاہیں ہیں۔ بیشتر دلکش تفریح گاہیں جنگلات کی وجہ سے ہی عام و خاص کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں خدائے بزرگ و برتر نے بھی اخروی زندگی میں انعام کے طور پر جنت یعنی باغات کی بشارت دی ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی سیرت النبی? بھی اس باب میں ہدایات سے خالی نہیں ہے جس کی رو سے جنگ کے دوران بھی درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں آج بھی ہزاروں سال پرانے درخت موجود ہیں۔ پاکستان میں زیارت (صوبہ بلوچستان) کے مقام پر صنوبر کے خوبصورت اور نایاب جنگلات کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے جسے UNESCO کی طرف سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگل تقریباً ایک لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں ساحل سمندر کے ساتھ تمر کے جنگلات بھی اہم جنگلاتی اثاثے میں شمار ہوتے ہیں۔ لاہور میں قیام پاکستان سے قبل سرکاری طور پر شمار کردہ چالیس سے زائد جنگلاتی خطے موجود تھے جن کی تعداد اب نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں نہروں کے کنارے محض چند ٹکوں کی خاطر درختوں کا بے دریغ قتل عام کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مجید امجد نے اس المیے کو یوں بیان کیا تھادنیا کے ایک تہائی درخت Arctic Circle یعنی آرکیٹک دائرے میں واقع ہیں۔ جب سردی کا موسم شمالی نصف کرّے میں ختم ہوتا ہے تو جنوبی نصف کرّے میں درختوں پر نئے پتے آ جاتے ہیں اور اس طرح لاکھوں درخت فوراً ہی آکسیجن پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہار کے موسم میں آکسیجن کا تناسب بہتر ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلے تقریباً تیس سالوں کے دوران (یعنی 2050 تک) 250 ملین ہیکٹر رقبے پر نئے جنگلات کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیات کو متوازن رکھا جا سکے بظاہر تو یہ شعر شہروں میں پھیلی ہوئی بے ترتیبی اور نفسا نفسی کو بیان کرتا ہے لیکن طبعی اعتبار سے بھی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ شہر وسیع تر ہوتے ہوئے جنگلوں سے جا ملے ہیں اور جنگل عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس قسم کی صورت حال میں پرندے اور فطرت کی عکاسی کرتے خوبصورت باغات اور ہرے بھرے میدان دور سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں اور محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً تتلیاں اور جگنو شہروں سے دور جا کر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔۔ 1960 کے بعد سے رپورٹ ہونے والی 30% سے زیادہ نئی بیماریاں زمین کے استعمال میں تبدیلی، بشمول جنگلات کی کٹائی سے منسوب ہیں۔ جنگلات میں مٹی اور پودوں میں ½ سے زیادہ عالمی کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ایک ایسا علاقہ جو تقریباً 14 ملین فٹ بال پچز کے برابر ہے ہر سال جنگلات کی کٹائی سے محروم ہو جاتا ہے۔کیڑے مکوڑے سالانہ تقریباً 35 ملین ہیکٹر جنگلات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جنگلاتی واٹرشیڈز اور ویٹ لینڈز دنیا کے قابل رسائی میٹھے پانی کا 75% فراہم کرتے ہیں۔
تتلیاں ہجرت کریں گی موسموں کے ساتھ ساتھ
اور شہر گل میں آشوبِ ہوا رہ جائے گا
جدت اور ٹیکنالوجی نے جنگلات کی نگرانی میں انقلاب برپا کر دیا ہے، جس سے ممالک کو اپنے جنگلات کو زیادہ مؤثر طریقے سے ٹریک کرنے اور رپورٹ کرنے کے قابل بنایا گیا ہے
۔ جنگلات کی شفاف اور جدید نگرانی کے ذریعے کل 13.7 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جنگلات کے اخراج میں کمی یا اضافہ کی اطلاع موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کو دی گئی ہے۔جنگلات کے بین الاقوامی دن 2024 کا تھیم جنگلات اور اس کا بچاوہ ہے: جنگلات کی کٹائی کے خلاف جنگ کے لیے نئی تکنیکی ترقی کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے سالانہ 10 ملین ہیکٹر ضائع ہوتے ہیں اور لگ بھگ 70 ملین ہیکٹر آگ سے متاثر ہوتے ہیں، یہ اختراعات قبل از وقت انتباہی نظام، اجناس کی پائیدار پیداوار، اور زمینی نقشہ سازی اور موسمیاتی مالیاتی رسائی کے ذریعے مقامی لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کی کٹائی کو کم کرنا اور جنگلات کی بحالی اور پائیدار انتظام کرنا 2030 کے عالمی اہداف کو پورا کرنے کے اہم راستے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کی شرح میں سست روی کے باوجود، 1990 سے اب تک 420 ملین ہیکٹر سے زائد جنگلات ختم ہو چکے ہیں۔جنگلات زمین کی سطح کا تقریباً ایک تہائی رقبہ پر محیط ہیں، جو برازیل، کینیڈا، چین اور ریاستہائے متحدہ کے مشترکہ علاقوں کے برابر ہیں۔ یہ 4 بلین ہیکٹر جنگلات صرف ہریالی کے وسیع حصّے ہی نہیں ہیں۔ وہ اہم ماحولیاتی نظام ہیں، جو کرہ ارض کی زیادہ تر انواع کے لیے رہائش گاہیں اور تقریباً ایک ارب لوگوں کے لیے معاش فراہم کرتے ہیں۔ صحت مند جنگلات سالانہ اربوں میٹرک ٹن CO2 جذب کرتے ہوئے کاربن ڈوب کے طور پر کام کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم جنگلات کی کٹائی اور انحطاط کی وجہ سے وہ خطرے میں ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحولیاتی حالات میں تبدیلی الرجین پیدا کرنے والے جنگلاتی انواع کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے ابھرنے کا ایک بڑا عنصر ہے۔ اس کے باوجود جنگلات کاربن ڈوب کے طور پر کام کرتے ہوئے، سیارے کے درجہ حرارت کو منظم کرکے، اور پانی کے بہاؤ میں ثالثی کرکے، ماحولیاتی تبدیلی کے انسانی صحت سے متعلق کچھ اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد کرسکتے ہیں۔
بین الاقوامی دن اور ہفتے عوام کو تشویش کے مسائل سے آگاہ کرنے، عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم اور وسائل کو متحرک کرنے اور انسانیت کی کامیابیوں کو منانے اور تقویت دینے کے مواقع ہیں۔ بین الاقوامی دنوں کا وجود اقوام متحدہ کے قیام سے پہلے ہے، لیکن اقوام متحدہ نے انہیں ایک طاقتور وکالت کے آلے کے طور پر قبول کیا ہے۔
زمین کا زیو ر جنگلات ہیں اور جنگلات کی بقاء انسانیت کی بقاء کے لئے ضروری ہے جنگلات اور جنگلی حیات اس دھرتی کا حسن ہے اس کی حفاظت ہم سب کا اولین دینی فرض ہے ریاست جموں وکشمیر ایک خوبصورت خطہ ہے اس کی خوبصورتی میں جنگلات کا بڑا اہم کردار ہے اس کی حفاظت ہم سب کادینی فریضہ ہے اس سلسلہ میں تحفظ جنگلات کمیٹیاں بنائی ہیںتاکہ عوام بھی محکمہ جنگلات کے ساتھ ملکر جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کریںجنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت اور ان کی نشو ونما کو بہتر بنانے کے لیے نچلی سطح پر نوجوان نسل کو شامل کرتے ہوئے مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔جنوبی ایشیاء میںشہروں کی ترقی کے لیے جنگلات بہت ضروری ہیں اورکسی شہر میں جنگلات کی موجودگی اس شہر کی خوشحالی خوبصورتی اور باشندوں کی صحت و تندرستی میں اضافہ کرتے ہیں ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان اور ا?زاد کشمیر میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جنگلات کو کاٹ کر رہائشی علاقوں میں تبدیل کیا جارہا ہے لہٰذا جنگلات کا تناسب برقرار رکھنے کے لیے شہروں میں شجر کاری بہے ضروری ہے تاکہ موسمیاتی تغیرات کے نقصانات سے نمٹا جاسکے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی ا?لودگی میں کمی آئے جنگلات کے ساتھ انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیںجنگلات سمندری کٹاو? کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں جنگلات کے عالمی دن کے موقعہ پر ہم سب کا فرض ہے کہ ہم جنگلات کی اہمیت کے حوالئے سے عوام الناس میں شعور بیدار کر یں۔جنگلات کا عالمی دن کے موقعہ پرزیادہ سے زیادہ درخت لگائیںاور ماحول بچائیں اس دن کے موقع پر لاکھوں نئے
درخت لگا کر درختوں سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے تو کیوں نہ آج کے دن پر ہم سب اپنے پیاروں اور والدین کے نام کا بھی ایک پودا لگائیں انہوں نے کہا کہ ماہرین کے مطابق پھول پودے انسانی شخصیت اور نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیںسایہ دار درختوں کا وجود نہ صرف انسانی صحت کے لئے مفید اور فرحت بخش ہوتا ہے بلکہ یہ موسمی تبدیلیوں سے بچاو? کا بھی ذریعہ ہے درخت لگا کر کرہ ارض پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلی میں خوشگوار تبدیلی لائی جاسکتی ہے پاکستان میں قدرتی جنگلات کے رقبے میں ہر سال 27 ہزار ہیکٹر کمی ہو رہی ہے بین الاقوامی ادارے ائی سی یو این کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 10 ملکوں میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیںپاکستان اور آزا کشمیر میں نہ صرف جنگلات کے کٹاوکو روکنے بلکہ عوام کے تعاون سے وسیع پیمانے پر شجرکاری کی اشد ضرورت ہے زمین کا زیو ر جنگلات ہیں زمین کی خوبصورتی دریاپہاڑ چراگاہوں ،جھیلوں اور جنگلی حیات سے ہے ان کی حفاظت حکومت اور عوام سب کا فرض ہے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں درخت کی ایک ٹہنی بھی کاٹنے کے لیے حکومت کی اجازت درکارہوتی ہے مگر ہمارے ہاں درختوں کی بے دریغ کٹائی ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ لوگوں میںجنگلات کی افادیت کے بارے میں شعورکا نہ ہونا ہے انھوں نے کہا کہ عوام الناس میں جنگلات کی اہمیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے گا تاکہ وہ درختوں کی حفاظت اپنی اولاد کی طرح کرسکے تبھی ہم اس خطے کو سرسبز بنا سکتے ہیں جنگلات اورجنگلی حیات اس خطے کا حسن ہے اس کی حفاظت ہم سب کادینی فرض ہے لائن ا?ف کنٹرول بھارتی فائرنگ کی وجہ سے جہا ں عوام الناس کو نقصان پنچ رہا ہے وہا ں جنگل اور جنگلی حیات بھی فائرنگ کی زد میں اکرتباہ ہورہے ہیں اور جنگلات میں ا?گ لگنے کی وجہ سے شدید نقصان ہورہا ہے جنگلی حیات کی نسل کشی ہورہی ہے جس کی وجہ سے قدرتی حسن ماند پڑرہا ہے جنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت خود بھی کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریںاب میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگل اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عوام الناس کے اندر شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار اداکریں یہ امر بالکل واضح ہے کہ آج اگر ہم اپنے ماحول کی بقا کے لئے اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل معدوم نظر آتا ہے آج ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے ماحول کو زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر محفوظ بنائیں گے پانی اور دیگر فطری نعمتوں کے ضرورت کے مطابق استعمال کو یقینی بنائیں۔ ایک زندہ قوم یقیناًعزم مصمم کی بدولت تمام اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انشاء اللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button