قارئین! آپ ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو رب کریم نے اس کائنات کی کوئی بھی چیزجو اس کا منشاء نہیںتو فرض نہیں کی گئی۔ پھر جوں جوں معاشرتی اور اقتصادی حا لات بہتر ہوتے گئے اور خاص طور پر جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہوا جو کوئی معمولی کتاب نہیں ۔اگر گستاخی نہ سمجھیں تو میں عرض کرتا چلوںکہ دنیا میںکسی بھی مصنف کی شاہکار تحریر بھی صرف نصف صدی گزر جانے کے بعد بیشمار اغلاط کی وجہ سے اس کتاب کا معجزہ ہے کہ کوئی پڑھے گا۔ لیکن دوسری جانب قران پاک کا یہ معجزہ ہے کہ پندرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود یہ اصل حالت میں موجود ہے۔ مشرکین کے بڑے بڑے دانشور یہ بات دل سے تو مانتے تھے کہ اللہ واحد ہے۔بد قسمتی سے ہم عبادات تو کرتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ اس کا شعور ہمارے پاس کم ہے۔قارئین االلہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا رمضان میرا مہینہ ہے اور شعبان پیارے نبی محمد عربی ۖ کا۔رمضان عافیتوں اور برکات کے نزول کا ماہ ہے جس میں اللہ کی بے شمار رحمتیں بنی نوع انسان کے لئے آسمانوں سے اترتی ہیں۔ایک مرتبہ حضور اقدس منبر رسول پر تشریف فرمانے لگے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو کہا آمین۔ دوسری پر قدم اطہر رکھا تو فرمایا آمین۔ منبر کی تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔یہ عمل نبی اطہر نے پہلے کبھی نہ فرمایا تھا۔ صحابہ کو تجسس ہوا انہوں نے پوچھا اے اللہ کے حبیب آج کیا معاملہ ہوا کہ آپ نے منبر رسول ۖ کی تینوں سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے آمین کہا۔رحمت عالم نے ارشاد فرمایا جب میں نے پہلی سیڑھی پر قد م رکھا تو روح الامین تشریف لائے انہوں نے دعا کی کہ ہلاک ہو وہ شخص جس کے ماں یا باپ کوئی ایک بڑھاپے میں ہو اور وہ ان کی خدمت کر کہ جنت نہ حاصل کر سکے۔ اس پر میں نے آمین کہا۔دوسری سیڑھی پر قم رکھا تو جبرائیل نے دعا کی ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور وہ جنت نہ کما سکا۔ اس پر میں نے کہا آمین۔تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرائیل امین نے دعا کی کہ ہلاک ہو وہ شخص جب آپ ۖ کا نام لیا جائے اور سننے والا درود نہ بھیجے۔ اس پر بھی میں نے کہا آمین۔ آپ اندزہ فرمائیے جب فرشتوں کا سردار بد دعا دے رہا ہو اور انسانوں کا سردا جو کہ وجہ تخلیق کائنات ہے وہ آمین فرمائے تو کیا اس شخص کی ہلاکت و بربادی میں کوئی شبہ کیا جا سکتا ہے؟؟؟ قطعی نہیں کیوں کہ طائف میں پتھر کھا کر بھی بدعا نہ کرنے والا جب بدعا پر آمین کہے تو اسے مولائے کریم کیسے ٹال سکتا ہے۔ اس context میں ہمیں سب کو اپنا پنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم ہلاکت کی جانب رواں دواں ہیں یا پھر ہمارے اطوار نبی اطہر ۖ کی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ اللہ جل جلالہ نے خود فرما دیا کہ الصوم لی و ان اجزی بہی۔ اب اس سے بڑا کیا جواز ہے کہ روزہ اللہ کے لئے ہے اور اس کی جزاء بھی وہ خود دیں گے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ روزہ گناہوں کے سامنے ڈھال ہے۔ میرے بھائیو ،بزرگو اور دوستو ذرا سوچئے کہ ہم اس ماہ سے کتنے فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔ روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ ہم بھوکے پیاسے رہیں۔ اللہ کو ہماری بھوک پیاس سے کوئی غرض نہیں وہ تو ہمارے ہر ہر عمل کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پائوں روزے کی حالت میں برے راستوں پر نہ چلیں۔ ہمارے ہاتھ کسی برائی میں حصہ نہ لیں۔ ہماری آنکھیں لوگوں کی بیٹیوں کو نہ دیکھیں۔ کیوں کہ اللہ پاک نے ہمیں ہاتھ، پائوں اور جسم کے ساتھ ساتھ آنکھیں اس لئے عطا
نہیں کی کی ہم گند میں لتھڑے رہیں۔
روزہ اس بات کا بھی سبق دیتا ہے کہ جو غریب سارا سال کھانے کو ترستے ہیں ہمارے دلوں میں ان کے لئے بھی احساس ہمدردی پیدا ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہم افطاری کے وقت مرغ،بیف، مٹن،ٹینگ، روح افزائ،نیسلے فریش اور پکوڑے ،سموسے چاول ،روٹیاں اپنے دستر خوان پر سجائیں اور ہمارا پڑوسی خھجور سے بھی محروم ہو۔ اس روزے کا تقوی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ سورہ بقرہ میں اللہ نے کھول کہ بیان کر دیا گیا کہ اے مومنو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ صرف اللہ نے معاذاللہ کوئی ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ ساری امتوں پر روزے فرض کئے گئے تھے۔روزے کا مقصد خشیت الہیٰ بھی ہے۔ کہ وہ اشیاء جو عام طور پر حلال ہیں لیکن اللہ کے حکم سے ہم ایک مقررہ وقت کے لئے انہیں استعمال نہیں کر سکتے اگر ایسا کریں گے تو ہمارے دلوں میں خدا کا خوف باقی نہیں رہے گا۔ مثال کے طور پرآپ اکیلے ہیں اور دنیا کی ہر نعمت آپ کے پاس موجود ہے۔ آپ پیاسے بھی ہیں ۔بھوک سے نڈھال ہیں لیکن اللہ کے حکم کی پیروی میں آپ کسی بھی حلال شے کو بھی کھانے کے مکلف نہیں۔ یہی تو تقوی ہے۔ جو روزہ مسلمانوں کے اندر پیدا کرتا ہے اور اپنے رب کے خوف سے حلال اشیاء کو بھی مقررہ مدت کے لئے حرام قرار دیتا ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔رمضان میں ایک فرض کا ثواب ٧٠ فرضوں کے برابر اور ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ لیلة القدر کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل قرار دے دی گئی ہے۔ اس عالم میں بھی جو انسان اللہ کو رمضان میں راضی نہ کر سکے اس کی ہلاکت اور بربادی میں واقعی کوئی شبہ نہیں رہتا۔
قارئین! ایک بات طے ہے کہ نہ اللہ کو ہماری بھوک سے کوئی غرض ہے نہ ہماری پیاس سے۔ اللہ تو صرف یہ آزمانا چاہتے ہیں کہ کون میری اتباع کرتا ہے اور کون اپنے نفس کا محاسبہ کر کے اپنے مفلس پڑوسیوں اور رشتہ داروں کا خیال کرتا ہے۔اگر اللہ ہمیں بھوکا رکھنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو حکم دے دیتا تو وہ ساری عمر بھوکے رہتے۔ لیکں روزے کا اصل فلسفہ محاسبہ نفس اور محاسبہ ایمان ہے۔
آج کے دور میں بھی بے شمار ممی ڈیڈی روزے نہیں رکھتے۔ او اللہ کے بندو یہ دنیا بہت قلیل ہے اس ے بعد والی زندگی میں نہ آپ کی ممی کام آئے گی اور نہ ڈیڈی۔ اس وقت کو غنیمت سمجھ کر اپنے اللہ کو راضی کر لو تا کہ تم دنیا اور آخرت کی فلاح پائو۔ ورنہ یاد رکھو جب روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تو یہی ممی ڈیڈی آپ کو زید،بکر وغیرہ نہیں کہیں گے بلکہ کہیں گے کہ میت کو جلد از جلد تدفین اور تجہیز کے معامالات نپٹائو۔
کالم کی وساطت سے عرض کرتا چلوں کہ روزہ اس بات کا نام بھی نہیں کہ سحری میں آپ ٦ پراٹھے ،٤ انڈے اور طرح طرح کے مشروبات ٹھونس کر روزہ رکھیں۔ بلکہ نبی اکرم ۖ کی پیروی کرتے ہوئے بھوک چھوڑ کر کھانا کھائیں اور اتنا زیادہ نہ کھائیں جو آپ کی صحت کے لئے وبال جان بن جائے۔آخر میں پھر گزارش کروں کہ اگر آپ کے رشتہ دار اور پڑوسی بھوکے ہیں اور آپ کا دستر خوان کھانوں سے بھرا پڑا ہے تو یہ روزہ بھی تقوی سے ہٹ کر ہے۔ اللہ شائد قبول فرما دے لیکن حقوق العباد کی نفی کی صورت میں آپ سے پوچھ گچھ لازمی ہو گی۔ لھذا رمضان کے اس مہینے کو صحیح معنوں میں کار آمد بنانے کے لئے نبی اطہر ۖ اور ان کے صحابہ کرام کی پیروی کریں۔ اسی پر اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔
قارئین!آخرمیں ان امیدوں،تحریر شدہ کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تا کہ ماہ صیام کے مقاصد کو پورا کر کہ اپنی جان تک بھی اللہ اگر مانگے تو اسمٰعیل کی صورت میں خدا کی نظر کرنے میں پہلو تہی نہ کریں۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
0 34 5 minutes read