کالم

تباہ ہوتی زراعت کی بہتری کے لیے کچھ تجاویز

پاکستان میں بے پناہ وسائل ہیں،یہ اور بات ہے کہ وہ ضائع ہو رہے ہیں یا ان سیکچھ افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کافی تعدادان مسائل سے مفاد حاصل کرنے میں ناکام ہے.بے پناہ وسائل کا مالک پاکستان ،بے پناہ مسائل میں پھنسا ہوا ہے.سارے وسائل کو چھوڑیے صرف ایک زراعت کو ہی دیکھییتو علم ہوتا ہے کہ پاکستان کی زراعت تباہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔بے پناہ قیمتی زمینیں تو موجود ہیں مگرفائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے.موجودہ گندم سکینڈل نے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے.اربوں روپے کی گندم بیرون ملک سے درآمد کر دی گئی اور گندم بھی ڈالروں کے ذریعے خریدی گئی.یہ خریداری پاکستانی کسانوں سے بھی کی جا سکتی تھی لیکن کسی نے مفاد اٹھانا تھا اس لییپاکستانی کسانوں کی گندم کو نظر انداز کر دیا گیا.پاکستانی کسان پریشانی کا شکار ہو چکا ہے کہ وہ اب گندم کہاں لے کے جائے گا؟اطلاعات کے مطابق اس گندم سیکنڈل میں بڑی بڑی بلکہ بہت ہی بڑی مچھلیوں کے نام آرہے ہیں۔یہ سیکنڈل چند دنوں کے بعدماضی کا حصہ بن جائے گا.اب لاکھوں کسان شاید گندم اگانا چھوڑ کرکوئی اور فصل کاشت کرنا شروع کر دیں گییا ہاسنگ سوسائٹیاں بننا شروع ہو جائیں گی.
اب بھی وقت ہیکہ زراعت کو سنبھالا جا سکتا ہے.حکومت توجہ دے کرزراعت کے شعبے کوعروج بخش سکتی ہے.پاکستان کی کثیرتعداد زراعت سے منسلک ہے.دریاں اورنہروں کا نظام بھی موجود ہے،مگراس پانی سیاس طریقے سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا،جس سے زراعت کا شعبہ ترقی کر سکے.زراعت کے لییکئی جگہوں پر قدیم طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں،جو کہ ترقی یافتہ دنیا میں متروک ہو چکے ہیں.کھادوں کے علاوہ زراعت کے لیے ضروری استعمال ہونے والے لوازمات بھی مہنگیکیے جا رہیہیں،جس سے کسان خوشحالی کی نسبت بدحالی کی طرف جا رہا ہے.زراعت کا شعبہ اپنی اہمیت رکھتا ہیکیونکہ صرف گندم پیدا نہیں ہوتی بلکہ کپاس،چاول،گنا، باجرہ،مکئی،چاول اور کئی قسم کی دوسری اجناس پاکستان میں کاشت کی جا رہی ہیں.زراعت کا شعبہ اگر جدید خطوط پر استوار ہو جائیتو اس سے پاکستانی قوم کافی فائدہ اٹھا سکتی ہے.زمین پر اگرمحنت کی جائے توآمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے.یہاں ماہرین کی کچھ تجاویزذکر کی جا رہی ہیں،ان تجاویزپر غور کیا جا سکتا ہے۔ان کانمبروارذکرکیاجارہاہے۔(1) سب سے پہلے کوئی بھی فصل اگانے سے پہلے زمین کو قابل کاشت بنانا ضروری ہوتا ہے.فصل کاٹنے کے بعدزمین میں ہل چلائیں،روٹا ویٹر کا استعمال کریں تاکہ زمین اچھی طرح تیار ہو جائے۔(2)فصلوں کو بروقت کاشت کرنا چاہیے.(3)فصل کاشت کرنے سے پہلے بیج اور کھاد وغیرہ خرید لیں تاکہ عین وقت پریشانی نہ اٹھانا پڑ جائے.(4)دیسی طریقے سے بھی کھاد دی جا سکتی ہے،گوبرکوبطور کھاد استعمال کرنے سیزمین طاقتور ہو جاتی ہے.گوبر کی کھادبوائی سے پہلے ڈال دینی چاہیے.(5)فاسفورس کھادوں کا استعمال دوائی کے وقت ضرور استعمال کرنا چاہیے. (6)ایک فصل بار بار اگانے سے گریز کرنا ضروری ہے،فصلوں کو تبدیل کر کے کاشت کیا جائے اس سے زمین طاقتور رہتی ہے.(7)بیج وہ ہونا چاہیے،جو محکمہ زراعت کا منظور شدہ ہواورکسی بیماری سیمتاثر نہ ہو.(8)بعض فصلوں کیبیجوں کوزمین میں بونے سے پہلے زہرآلود یعنی بیج کو دوائی میں ڈبونا ضروری ہوتا ہے.مثلا مونگی کی فصل اگانے پہلے بیج کو دوائی لگا دینی چاہیے.کپاس کا بیج بھی دوائی کا ضرورت مند ہوتا ہے،کپاس کے بیج کا بر(چھلکا)اتارنے کے لییگندھک کا تیزاب استعمال کیا جاتا ہے.(9)فصلوں کو مناسب وقفے سے پانی لگانا ضروری ہے.(10)اگر کوئی فصل نہری پانی سے سیراب ہو رہی ہواور ضرورت ہو تو اضافی آبپاشی کے لیے ٹیوب ویل کا پانی بھی لگادینا چاہیے،اس طرح کی تبدیلی فصل کے لیے فائدہ مندثابت ہوسکتی ہے.(11)فصلیں کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں،لہذا زرعی ادویات کے ذریعے سپرے کرنا ضروری ہو جاتا ہے.بعض اوقات فصلوں کے ساتھ جڑی بوٹیاں بھی اگ آتی ہیں،ان کو بھی سپرے کے ذریعے تلف کرنا ضروری ہوتا ہے۔غیر ضروری جڑی بوٹیاں فصل پر اثر انداز ہوتی ہیں.لہذا محکمہ زراعت کی تجویز کردہ ادویات کے ذریعے ان کو تلف کر دینا چاہیے.اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر بارش کا امکان ہو تو سپرے نہ کیا جائے.بعد از بارش سپرے کرنا فائدہ مند ہوتا ہے،کیونکہ بارش سپرے کونقصان پہنچاتی ہے. مندرجہ بالا تجاویزکے علاوہ محکمہ زراعت کی تجویز کردہ تجاویز کو بھی اپنایا جائے.حکومت کو چاہیے کہ فصلوں کی کاشت کے لیے ضروری لوازمات بروقت مہیا ہوں.کسانوں کو سبسڈی دی جائے تاکہ ان پر بوجھ کم پڑے.ان کو زرعی قرضے بھی دیے جائیں اور یہ قرضے بلا سود ہوں.زراعت کے لیے جدید طریقے بھی اپنانے ضروری ہیں.ترقی یافتہ ممالک کے کسان فی ایکڑ زیادہ فصل حاصل کر رہے ہیں اور اخراجات بھی کم ہوتے ہیں لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے.کسان بیچارہ اخراجات زیادہ کرتا ہے لیکن فصل کم اٹھاتا ہے.ٹیوب ویلوں کوبجلی کی بجائے سولر انرجی پرمنتقل کیا جائے,اس سے کسانوں کو سستا پانی مہیا ہو گا.اگر سولر انرجی کے ذریعے ممکن نہ ہو تو بجلی میں سبسڈی دی جائے تاکہ وہ سستا پانی اپنی زرعی زمینوں کولگا سکیں.ٹریکٹر اور دیگر زرعی آلات ہی کسانوں کو آسان شرائط پر دیے جائیں۔وقتا فوقتا جدید تحقیقات پوری دنیا میں ہوتی رہتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہیاور ملک میں بھی جدیدتحقیقات کی جا سکتی ہیں،اس کیلییضروری ہے کہ حکومت فنڈمہیا کرے.پانی کا نظام بہتر بنانا ضروری ہے.بعض اوقات سیراب ہونے والی زمین اورپانی کے پوائنٹ /ٹیوب ویل کے درمیان کافی وقفہ ہوتا ہے،اس کی وجہ سے پانی راستے میں اڑ جاتا ہے یا ضائع ہو جاتا ہے.اس کے لیے ضروری ہے کہ پائپ لائن بچھائی جائے یا پختہ کھال بنائے جائیں. اگرہم نے زراعت کے شعبے کو ترقی دینی ہیاور اس سے فائدہ اٹھانا ہیتو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا.کسانوں کے مسائل سمجھنے بھی ہوں گے اور ان کا حل بھی نکالنا ہوگا.مہنگی کھاد اور بیج کوسستادستیاب کرناضروری ہے۔اس کے علاوہ پانی وغیرہ بھی آسانی سے دستیاب ہوناضروری ہے۔پاکستان کی زرعی زمینیں بہت ہی نایاب ہیں۔پاکستان کا وسیع رقبہ ابھی تک ناقابل کاشت پڑا ہے،اس رقبے پر توجہ دے کر کافی فصلیں اگائی جا سکتی ہیں.اکثر اوقات سیلاب آتے رہتے ہیں،جس سے زمینیں تو خود خراب ہو جاتی ہیں بلکہ فصل بھی تباہ ہو جاتی ہے.سیلاب کا رخ موڑنے کے لیے بندوبست کرنا ضروری ہے.کافی رقبہ سیلابوں سے متاثر ہو چکا ہیاور کسان پریشانی کی وجہ سے اس کوآباد نہیں کر رہے،حکومت خصوصی توجہ اور سبسڈی دے کر اس علاقے کوآباد کرواسکتی ہے۔زراعت صرف فصلوں تک محدودنہں ہیبلکہ پھل وغیرہ بھی زراعت میں آجاتے ہیں۔پاکستان میں بہترین آم پیدا ہوتا ہیاور یہ آم دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے,اس کے علاوہ مالٹا،سیب،,آڑواوردیگر سینکڑوں قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں.پاکستانی حکومت اس طرف توجہ دے کر بھی ملک کو خوشحال بنا سکتی ہے.زراعت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے،تاکہ کسان خوشحال ہو سکے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button