کالم

عوام کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنی تو صبح وزیروں سے پو چھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کررہے تھے۔کیا وجہ ہے؟۔اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے۔انھوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگئی ہے اس لئے فریاد کررہے ہیں۔تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کیلئے کھانے پینے کے سامان کابندوبست کیا جائے۔وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوادیا اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا۔اگلی رات کو پھر وہی آوازیں آئیں، تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا کیا،تو وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا۔اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں ؟۔تو وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کررہے ہیں ،تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے جس پر وزیر صاحب کی پھر موجیں لگ گئیں۔حسب عادت کچھ بستر گھر بھیج دیئے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیے۔جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہوگئیں تو بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیاتو وزیر نے کہا کہ جناب وہ سب کچھ ہوگیا ہے تو بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں ؟تو وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئن کرنا ہی تھا اور اوکے رپورٹ بھی دینی تھی تو وہ باہر گیا کہ پتہ کرکے آتا ہوں ،جب واپس آئے تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کررہے بلکہ آپ کا شکریہ ادا کررہے ہیں اور روزانہ کرتے رہیں گے،بادشاہ سلامت یہ سن کے بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا۔اب یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں ،مگر یہاں رپورٹ سب اوکے دی جارہی ہے اور بادشاہ سلامت خوش ہیں رو زانہ اخباروںمیں غربت کے ہاتھوں بے بس ہوکر خودکشی کرنے کی خبریں چھپتی ہیں لیکن ہمارے حکمران بھی اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے انہوںنے انپی آنے والی نسلوںکے لئے دولت کے پہاڑ اکٹھے کرلئے ہیں اور عوام ہیں کہ ان کے لئے رمضان المبارک میں محض ریلیف پیکچ اس میں بھی بھوکے پیاسے قطاروںمیںلگ کر دھکے کھاناپڑتے ہیںذلت الگ سے اٹھانا پڑتی ہے لیکن ہمارے بادشاہ سلامت کے پاس زمینی حقائق دیکھنے یاعوام کی مشکلات پرتوجہ دینے کیلئے وقت ہی نہیں اوریہ بھی نہیں سوچاان کے تین سالہ دورحکومت میں مہنگائی کی ستائی عوام پرکیاگذررہی ہے اس کے برعکس ان کے وزیرباتدبیرسب اوکے کی رپورٹ دے رہے ہیں کہ اب عوام خوشحال ہوگئی ہے روزانہ خوشامدی حکمرانوں کے حق میں زندہ بادکے نعرے لگاتے ہیں جیسے اب عوام کے مسائل ختم ہوگئے ہوںیہ توصرف اپوزیشن کی کارستانی ہے جومسائل کاشورمچارہی ہے ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوںنے پاکستان کے حالات اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ لوگ بھوک بدحالی سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اس کاذمہ دارکون ہے ؟ کیاحاکم وقت سے اس ناحق موت کاحساب نہیں لیا جائے گا؟ناجانے کیوں ہم من حیث القوم آخری ہدوں کوچھورہے ہیں۔ ماضی کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیںامریکہ میں جارج فلائیڈ کی موت نے ساری امریکن قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پورا امریکہ نسل پرستی کے خلاف متحد ہوکے کھڑا ہوگیا اور حکومت کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا،لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں ایک سٹریٹ سنگرکی ایک پولیس والے کے ہاتھوں ہلاکت پرپورے چلی میں عوام سڑکوں پر آگئے،ہمارے ملک میں کتنے بیگناہوں کوپولیس نے قتل کردیاگیا ساہیوال کا واقعہ کو زیادہ وقت نہیں گذرا ،سانحہ ماڈل ٹائون میں نہتے لوگوںکو گولیاں مارنے والوں کی ویڈیو سب کے سامنے ہیں ان کو شناخت بھی کیا جاسکتاہے ، بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے ڈیوٹی پرمامور ٹریفک پولیس کے ایک جوان کو دن دیہاڑے کچل کر مار ڈالا ا کچھ نہیں ہوا سکندر جتوئی کیس بھی سب کے سامنے ہے اشرافیہ نے عوام کودیوارسے لگارکھاہے مگر ہمارے حکمران شاید کسی بہت ہی بڑے سانحے کے انتظار میں ہیں ،حکمرانوں کویہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے جب عوام اپنے حقوق اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر فسطائیت اور رجعت پسند حاکمیت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی توپھرانہیں روکنے والاکوئی نہیں ہوگااور حکمرانوں کوسب اوکے کی رپورٹ دینے والے بھی کہیں نظرنہیں آئیں گے لیکن حکمران سوچتے ہی نہیں کہ ان کے دور ِ حکومت کے دوران مہنگائی میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے دیہاڑی دار مزدور سے لیکر سرکاری ملازم ساری قوم غربت کی سولی پر جھول رہی ہے مہنگائی ، بیروزگاری نے انہیں خون کے آنسو رلادیا ہے معصوم طالب علم سکول چھوڑ کر اپنااورگھروالوں کے پیٹ کادوزخ بھرنے کیلئے اپنے ننھے ہاتھوں سے مزدوری کرنے پر مجبورہوگئے ہیں اور حکومت کی ترجیحات میں IMF سے قرض لینا مسائل کا آخری حل ہے حالانکہ اسی قرض نے ہمارا بچہ بچہ مقروض کرکے رکھ دیاہے۔آخر میں ہم صرف یہی عرض کریں گے کہ وزیر ِ اعظم صاحب وزیروں مشیروں اور خوشامدیوں کی فوج ظفرموج کے گھیرے باہر نکلئے اورحقیقت کاسامناکیجئے اورعوام کے مسائل کاادراک کیجئے ورنہ نہیں تاریخ کاحصہ بنتے دیرنہیں لگتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button