روزہ جہاں صبر کا نام ھے وہاں رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی مانگنے کا ایک ذریعہ انعام کے طور پر دیا گیا ہے، انسان غلطیاں تو کرتا ہے تو توبہ کے دروازے اسی لیے کھلے ہیں کیوں کہ وہ” تواب الرحیم” ھے یہ اس کا پسندیدہ عمل کیوں ھے؟ ذرا غور کریں اس لئے کہ وہ مالک ہے، رب ھے، اس کے سامنے جھکنا بنتا ہے کہ آپ جھک کر بلند ھو جاتے ہیں دنیاوی خداؤں کے آگے جھکنے سے آپ کی بے عزتی اور عزت نفس تار تار ہو جائے گی مگر جب اس اللہ کے سامنے جھکا جاتا ہے تو آپ معراج پہ ھوتے ہیں، آدم کو زمین پر بھیجنے والا اور پھر معافی سیکھانے اور مانگنے کا طریقہ بتانے والا بھی وہی اللہ ہے، جب آدم نے مانگا اے ھمارے رب پہلے رب مانا، پھر فرمایا ھم اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو نے رحم، معاف نہ کیا ھم ھمیشہ خسارہ پانے والوں میں سے ھو جائیں گے، کیا اس کے لیے کوئی فریاد سن سکتا ہے، معاف کر سکتا، رحم کر سکتا ہے، ھرگز نہیں
پھر ھمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کتنی خوبصورت ہے کہ اے میرے رب ھماری دنیا اور آخرت اچھی کر دے اور اس نار جہنم سے نجات دے دے، جس کو برداشت کرنا ھمارے لئے کسی طور ممکن کیا ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں برداشت کر سکتے، ھم کمزور ہیں تو معاف کرنے اور سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ھے۔
قرآن سے تعلق جڑ جائے تو یہ رمضان کی سب سے بڑی برکت ھے میری ذاتی طور پر یہی سب سے بڑی خواہش ہے، تلاوت سے لے کر اس کے سمجھنے، آگے پہنچنے اور عمل سے گزرنے کا بہت ذوق اور شوق بلکہ سب سے بڑا فریضہ سمجھتا ہوں جو باجوہ کبھی ھو پاتا ہے کبھی نہیں، اک جہاں آباد ھے جس کے حرف میں گفتگو ربی اور سیرت و صورت نبی کریم ھے کیا ھم اللہ سے گفتگو کرنے سے یا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل اور صورت نبی کریم دیکھنے سے کتراتے ہیں کہ قرآن مجید کے اندر اترنے کی کوشش نہیں کرتے، پھر دعویٰ محبت کیسا،؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن ہیں اور قرآن غلاف میں بند، کبھی قسمیں کھانے کے لیے، کبھی دلہن کے سر پر اور کبھی جھوٹے حلف اٹھانے کے لیے کیا محبت رسول یہ ہے،؟ اگر ھم نے اللہ تعالیٰ سے بیٹھ کر گفتگو کرنی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضوری میں پانا ہے اور سیرت کو اپنانا ھے تو پھر تو قرآن مجید میں اترنا ھوگا، اس کا فہم حاصل کرنا ھوگا خصوصا پڑھے لکھے حضرات کی تو اولین ذمہ داری ہے، باقی رہی رحمت اور مغفرت تو سب کے دروازے بسمہ اللہ کی چابی سے کھلتے ہیں اور پھر نئی دنیاؤں کی کوئی حد نہیں، منزل در منزل اک نیا جہاں آباد ھے، لوگوں نے زندگیاں لگا کر اس سفر کی برکات حاصل کیں، ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا، مولانا حمید الدین فراہی بستر مرگ تک اسی سفر میں رہے اور امانت مولانا امین احسن اصلاحی کو سپرد کر کے مسرت سے اللہ کے حضور حاضر ہوئے، کیا یہ جدوجہد معمولی تھی؟ نہیں دوستو کیا ھم اپنے فہم کے لیے اس راستے میں اتر سکتے ہیں کہ نہیں اسی فکر میں شب وروز گزرتے ہیں
اکثر لوگ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ توبہ کہاں تک قبول ہوتی ہے؟ اب یہ اگر ڈھیل کی طلب اور گناہ کے مزید آپشن کی سوچ و نیت ھے تو پھر تو نہیں باقی جب تواب الرحیم کا لفظ استعمال کیا گیا تو اس کے مطلب ہے کہ آخری سانس تک یہ یقین قائم رکھنا چاہیے کہ توبہ قبول کرنے والا ھے ھاں شرک ظلم ھے معاف نہیں ھوگا، نہیں ھو سکتا، یہاں آپ اس کی خدائی، ملکیت اور طاقت کو چیلنج کر رہے ہیں، جس کا انجام ماضی میں فرعونوں اور نمردوں سمیت بڑے بڑے شدادوں کے انجام پر دکھایا بھی ھے، آپ فساد فی الارض کا باعث ہیں یہ بھی قابل معافی جرم نہیں، کسی کی عزت پامال کرتے اور اچھالتے ہیں معافی کیسے مل سکتی ہے، کسی کی جان لیں گے تو مشکلات سے گزرنا پڑے گا کسی کے حق واپس نہیں کریں گے، معافی کیونکر ملے گی، جو معاملہ آپ کے اور اس اللہ کے درمیان ھے، اس کے لیے اللہ نے دروازہ کھول رکھا ہے، کیونکہ معاف کرنا، رحم کرنا اور پردہ ڈالنا اسے اچھا لگتا ہے اوروہ چاہتا ہے کہ” تو باز آ جا،تو پلٹ آ
رمضان کے روزے خالصتا اللہ کے لیے اور اس کا اجر بھی اسی کے پاس ھے، اور سب سے بڑا اجر، رحمت و مغفرت ھے، اس انعامی وقت، اس عام اعلان رحمت و مغفرت سے فایدہ اٹھانا ہی دانشمندی ھے، وہ خطائیں جو خفیہ ہیں یا اعلانیہ، جو میں جانتا ہوں اور جو نہیں جانتا، تو عیبوں پر پردہ ڈالنے والا ہے، معاف کرنے والا ھے، تیری کرسی اور بادشاہی بڑی ھے جب یہ دعا، نیت اور عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ھوں گے تو وہ ضرور معاف کرے گا، اس لئے بھی کہ معاف کرنا اسے بہت پسند ہے، معافی ھمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت پسند ھے، ہر اچھا انسان معافی کو اہمیت دیتا ہے اور عاجز ھوتا ھے، اس لئے معافی کا یقین لے کر اسکے در پہ جائیں گے تو رحمت کا دامن، معافی کا دامن وسیع پائیں گے، ھم تو صاحب اتنا جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب، محبت اور رحمت کرنے والا، معاف کرنے والا کوئی نہیں ہے، لہذا عشرہ رحمت و مغفرت میں اسی نیت کے ساتھ سفر جاری رکھیں گے،۔۔۔
0 42 4 minutes read