قارئین! زمین کا وہ حصہ جسے اللہ تعالیٰ نے ایک بار نہیں بار بار قرآن مجید میں مقدس سرزمین کہہ کر یہ بات اہل اسلام کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح سے مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام ہمارے لئے مقدس ہے اسی طرح سے فلسطین کے اندر قبلہ ء اول بھی ہمارے لئے مقدس اور حرم کی طرح ہے۔ تاریخی پس منظر میں جائیں تو مسلمانوں کے لئے پہلے نمبر پر مسجد الحرام،دوسرے نمبر پر مسجد نبوی اور تیسرے نمبر پر یروشلم میں واقع مسجد اقصٰی ہے۔جب نبی اطہر ۖ کو اللہ سے ملاقات کا شرف بخشا گیا تو اس وقت بھی قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ،،ہم نے تمہیں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کروایا،، اور اس کے بعد ساتوں آسمانوں اور اللہ کے دیدار کا شرف عطا کیا گیا۔ اس ضمن میں اگر غور کیا جائے تو فلسطین میں واقع مسجد اقصیٰ کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ لیکن نجانے آج کے مسلمانوں کو کیا ہو گیا کہ فلسطین کی زمین کی چیخ و پکار ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی۔اس وقت فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر اسرائیل پس پردہ جن قوتوں کے بل بوتے پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرا رہا ہے، کیا روز محشر اللہ جل جلالہ اس بارے میں ہم سے سوال نہیں پوچھے گا کہ اس وقت ہم کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے؟قارئین محترم! کہتے ہیں کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا۔بعینہہ اگر جانوروں کو گوشت کھلا دیا جائے تو یہی انجام ہو گا۔پودوں کو آبپاشی کے بجائے دودھ ڈالا جائے کہ وہ جسیم ہوں تو نتائج منفی نکلیں گے۔پتھر کو مرغن غذائیں کھلانے کی کوشش کی جائے تو وہ کبھی بھی صحت مند نہیں ہو سکتا۔مٹی کو اگر اچار اور چٹنی کے ساتھ کھانا ڈالا جائے تو نتائج صفر ہوں گے۔اور اگر امریکہ یاتری میں ہم ننگے ہو کہ بھی ناچیں تو امریکہ اور اسرائیل ہماراے دشمن ہی رہیںگے۔حیرت اس بات کی ہے کہ بدر میں جسے یوم فرقان کہا جاتا ہے 313ہزاروں کے لشکر کو شکست فاش دے سکتے ہیں تو ہم آج اتنی تعداد میں ہیں کہ اگر ان دونوں ممالک کی طرف ایک ایک ریت کا ذرہ بھی پھینکیں یا ان کی جانب منہ کرکہ پیشاب کریں تو یا تو یہ صحرا بن جائیں گے یا پیشاب کے سیلاب میں ڈوب کر تباہ ہو جائیں گے۔ پھر وہ کون سی قوت ہے جس نے ہمارے جذبہء ایمانی کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ہم فلسطین کے معصوم بچوں،خواتین اور بوڑھے لوگوں کی بلا وجہ اور صرف کچھ لوگوں کی ایماء پر شہادت پر لب کشائی کی جرات بھی نہیں کر سکتے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جس طرح سر زمین فلسطین ہمارے لئے مقدس ہے اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے بھی ہے،لیکن اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ وہاں پر مسلمانوں کی نسل کشی کی جائے؟ مجھے بتائیے اقوام متحدہ کس مرض کی دوا ہے،وہ اس وقت اس ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی قدم کیوں نہیں اٹھا رہا۔ اس کا سیدھا اور آسان حل ہے کہ مقدس مقامات کو جو کہ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لئے ہیں انہیں Open Areaقرار دیا جائے،اور وہاں پر کسی بھی مذہب بشمول مسلمانوں کو قبضے کی اجازت نہ دی جائے۔ اور جب جب جس کی باری ہو وہ وہاں جا کر اپنی عبادت کریں۔ عقل دنگ ہے کہ عیسائی اور یہودی بے لگام ہیں اور فلسطین میں صرف مسلمان عتاب کا شکار ہیں۔ مجھے معذرت سے تحریر کرنے دیں کہ اس میں ہم سارے مسلمان بھی قصور وار ہیں جو دم سادھے بیٹھے ہیں اور کسی معجزے کے انتظار میں ہیں او بھلے لوگو نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا اب معجزات نہیں ہو سکتے،جب تک آپ اپنے حق کی خاطر آواز بلند نہیں کریں گے تو فلسطین کی سرزمین کی چیخیںاور فلسطین کے بے گناہ عوام کا لہو آپ کے ذمہ ہے۔صاحبو! ہمارے اسلاف تو ایسے نہیں تھے۔اگر باقی دنیا کے مسلمانوں کو شامل کر کہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کیا آج مندرجہ ذیل حقائق سے کوئی منہ موڑ سکتا ہے؟جب طاقت ور کہتا ہے do more تو ہمارے ارباب اختیار اتنا بھی نہیں کہتے کہ do a few اس ساری صورتحال میں اقبال کا فلسفہ خودی زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ بابائے قوم کے نظریات باطل ہو جاتے ہیں۔ علی برادران کی کاوشیں پھیکی پڑ جاتی ہیں۔لیاقت علی کا جذبہ حب الوطنی ماند ہو جاتا ہے۔سرسید کی تعلیمی کاوشیں صفر ہو کر رہ جاتی ہیں ہم طاقتور کے قدموں میں جا کے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ خالد بن ولید کی روح کتنی افسردہ ہوتی ہو گی۔ طارق بن زیاد اپنے جنتی بھائیوں سے مسلمان قوم کی غیرت کے متعلق دریافت کرتے ہوں گے کہ کہاں گم ہو گئی؟ اورنگزیب عالمگیر مسلمانوں کی موجودہ صورت حال دیکھ لیتا تو شائد دل کے دورے کی وجہ سے جان بحق ہو جاتا۔ محمد بن قاسم بنت حوا کا جو حال فلسطین میں ہو رہا ہے اس پریقینا نوحہ کناں ہو گا۔عمر بن عبدلعزیز ملکی ظلم و جبر کی داستانیں جنتی بھائیوں سے سن سن کر سر دھن رہے ہوں گے۔ابو بکر صدیق مسلمانوں کے مکا ر، جھوٹے اور بد خواہ سیاسی راہنمائوں کی حالت زار پر کتنے افسردہ ہوں گے۔ حضرت عمر فاروق ہماری بزدلی کو دیکھ دیکھ کہ شائد شرمندہ ہو رہے ہوں گے۔حضرت عثمان غنی جو شرم و حیا کا پیکر تھے وہ جب ہمارے معاشرے کے ننگ دھڑنگ مرد و زن کی حالت دیکھتے ہوں گے اور دسری جانب فلسطین کی بے پردہ بچیوں کی لاشیں دیکھتے ہوں گے تو ان پر کیا بیتتی ہو گی؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب لوگ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو انہیں مرحب پہلوان سے اپنی کشتی کا منظر نظر آتا ہو گا۔قارئین محترم! ہمارے اسلاف کتنے عظیم اور بلند پایہ لوگ تھے۔ علوم و فنون کے ماہر۔ بہادری کی زندہ مثالیں۔انصاف کے پیکر۔ حیاء ان کا زیور تھا۔آج ہم کس کی روش کو اپنا کر سینہ تان تان کر خدا کی دھرتی پر چلتے ہیں۔ ہم میں کوئی ایک خوبی بھی ہو تو خدا راہ مجھے کسی طرح بتائیے گا کیونکہ لوگ مجھ سے اہل اسلام کی خوبیوں کے بارے میں استسفار کرتے ہیں۔قارئین! مسلمان اپنے بھائی مسلمان کا گلا کاٹنے میں دریغ نہیں کر رہا اور جب غیر مسلموں کے ظلم و ستم دیکھتا ہے تو جس طرح آج فلسطین کے لئے لب سلے بیٹھا ہے اسی طرح ساری دنیا کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش ہے۔دن دیہاڑے باپ اپنی بیٹیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ بیٹا تھورا سا بڑا ہو جائے تو مجال ہے کہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرے۔اس ساری صورتحال میں خاکم بدہن مغربی معاشرہ جو فلسطین کے مسلمانوں کے لئے ظلم و ستم پر طرح طرح کی دلیلیں دے رہا ہے ہم سے بدرجہ اتم اخلاق میں بہتر ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نبی اطہرکی تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیا ہے اور اور ہم مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے جسم اور لباس کیچڑ آلود کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہمار مذہب مطہر اور پاکیزگی کا درس دیتا ہے۔ا س ساری صور ت حال میں ہم دنیا کے نقشے میں اپنی موت آپ مر جائیں گے او اور غیر مسلم اقوام کی دنیا پر عملی حکومت قائم ہو جائے گی۔یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ خدا را اپنے اخلاق اور کردار کو سنوارئے اور اپنے آبائو اجدا کے طور طریقوں پر زندگی گزارنے کی سعی کی جئے۔ ورنہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے اور ہماری اصل تعلیمات یہود،ہنود عیسائی اور غیر مسل اقوام اپنا کر دنیا اور عاقبت میں سرخرو ہوں گے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ قارئین! تمام الہامی مذاہب کے ماننے والے اللہ کو واحد مانتے ہیں،یہ الگ بحث ہے کہ یہود و نصاریٰ کس طرح سے اللہ کو واحد مانتے ہیں۔جب سے اللہ نے آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا تو اسی وقت سے اسلام کو دین کے طور پر چنا گیا۔
شروع میں جب اللہ نے قبلہ کا تعین کیا تو قبلہ اول یعنی کنعان موجودہ فلسطین میں موجود ہے۔ ہم مسلمان جو نبی اطہرۖ کو آخری نبی مانتے ہیں ہم بھی اسی قبلے کی طرف منہ کر کہ نماز ادا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی تو قبلے دو ہو گئے،جنہیں ہم قبلہ اول اور قبلہ دوم کہتے ہیں۔
قارئین! جب اللہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کی امامت کے لئے منتخب کیا تو اللہ نے ان کی ذمہ داری لگائی کہ آپ اپنی قوم کے ایک حصے کو فلسطین میں آباد کریں گے اور دوسرے حصے کو جزیرہ نما عرب میں آباد کریں گے۔یوں فلسطین میں اسحٰق علیہ السلام کو ذمہ داریاں سونپی گئیں اور عرب میں اسمٰعیل علیہ السلام کو عرب کا متولی بنا دیا گیا۔ اللہ نے تقریبا 4000سال تک ہر قوم تک ایک نبی یا رسول بھیجا لیکن اس کے بعد ذریت ابراہیم کو اس منصب کے لئے چن لیا گیا۔سیدنا موسیٰ نے فرعون سے بچا کر جب بنی اسرائیل کو لایا تو یہ اللہ کی اسی سکیم کا حصہ تھا۔پھر آل عمران سے حضرت عیسیٰ کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔یوں پہلے بنی اسرائیل کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ انسانیت کو اللہ کا پیغام پہنچائیں۔یوں ذریت ابراہیم کا ہر فرد کو چن لیا گیا کہ وہ اللہ کے پیغمبر کے طور پر کام کریں گے۔
قارئین! عرب میں محمد بن عربیۖ کا رسول بننا ابراہیم علیہ السلام کی شاخ سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے تعلق رکھتے تھے۔اس طرح سے بنی اسمٰعیل کو عرب کے لوگوں تک خدا کی وحدانیت اور ابدی جنت کے لئے چننے کا کام سونپ دیا گیا۔قرآن میں بے شمار جگہ پر آیا ہے کہ بنی اسرائیل کو فضیلت بخشی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ گویا دنیا کی سب قوموں میں سے بنی اسرائیل کو اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے خاص کر دیا گیا۔اگر آپ بائبل کا مطالعہ کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ جس طرح قرآن رسول اللہ پر انسانیت کی راہنمائی کے لئے اتارا اسی طرح بائبل بنی اسرائیل کو راہنمائی کے لئے نازل کیا۔
افسوس صد افسوس کہ ہمارے آباء و اجداد کیا تھے اور آج ہم سات ملین سے زیادہ ہو کر بھی معمولی سے ملک اسرائیل کو فلسطین پر بے جا ظلم و بر بریت اور قتل عام سے روک نہیں پا رہے۔ میں حضرت اقبال سے معذرت کے ساتھ اس شعر پر اپنا Catharsisنکالنے کی کوشش میں اختتام کروں گا۔
رزم حق و باطل ہو تو بریشم کی طرح نرم
ہو حلقہ یاراں تو فولاد ہے مومن۔۔
0 48 7 minutes read