کالم

رحمتوں کا سفر

کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا صرف ایک حصہ دنیا میں رکھا ہے اور ننانوے فیصد رحمت آخرت کے لیے رکھ چھوڑی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو عطا کی جائے، قرآن مجید میں رحمت خداوندی کا اعلان بے شمار مرتبہ نقل کیا گیا، ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا”اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دیا ہے”
اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری رحمت میرے غضب پر حاوی ھے،اسی طرح ایک سورہ میں اعلان کیا کہ تم سے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کر بیٹھے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، رحمت کی تلاش میں ہی سب کچھ مل جاتا ہے، اسی سفر میں سفر ہی منزل ھوتی ھے، ظاہراً بڑے معمولی واقعات لیکن رحمت کے دریا بہا دیتے ہیں، ایک محدث نے کہا کہ مجھے ساری زندگی حدیث لکھتے گزری اور ایک مرتبہ میں نے لکھتے ہوئے قلم روکا اور قلم کی نوک پر ایک مکھی اکر بیٹھ گئی جس نے سیاہی چوسنا شروع کر دی وہ بھوکی، پیاسی تھی، اور میں روکا رہا، قلم ساری زندگی چلانا اتنا معتبر نہیں ٹھہرا مگر قلم کا دو منٹ روکنا اور مکھی کا احساس کرنا میرے لئے وسیع رحمت کا باعث بن گیا، یہ ھوتا ھے انسان کا احساس کے ساتھ جڑا اللہ تعالیٰ کا قرب، جو باعث رحمت ھے اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، ایک بڑا سہارا اور مجھ جیسے گنہگار کے لیے اثاثہ ہے، ہر وقت اس کی رحمت کا سمندر بہتا رہتا ہے اور سیراب کرتا رہتا ہے، ختم نہیں ھوتا، غور کریں گے اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوتی تو آج جہاں جہاں ھم ہیں، کیا ھمارے کرتوت اس قابل تھے کہ یہاں ھوتے ھرگز نہیں، رمضان کے پہلے عشرے کو پن پوائنٹ اس لئے کیا گیا کہ لوگ اس طرف متوجہ ھوں، اللہ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی اور انسانوں کو اس طرف لانے کے لیے باقاعدہ کھنچتی ھے
رحمت حاصل کرنے کا بالکل سادہ فلسفہ ھے تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا، زمین جتنی چیزیں ہیں وہ انسان کے رحم کی محتاج ہیں، انسان ہی انسان کے کام آتا ہے، کیڑے مکوڑے سے لے کر جانوروں اور پرندوں سے کائنات کی ہر چیز پر رحمت انسان کے ذمے داری ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزہ گفتگو اور بھوکوں کو کھانا کھلانا بہترین اخلاق قرار دیا، تو کیا اخلاق کے اس قانون کو ھم فالو کرتے ہیں،؟ یہ سوال اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہیے، رمضان میں یہ رحمت ھماری تلاش میں ھوتی ھے کہ کوئی آئے، کوئی آگے بڑھے اسے یہ رحمت مل جائے، پھر تنہائی کی عبادت اور اللہ کی بندگی وہ رات کے آخری پہر کا جاگنا اور رکوع وسجود کرنا اللہ تعالیٰ کو بڑا محبوب ھے، بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ اور بندے کا تعلق ایسے ہی اعمال سے جڑا رہتا ہے جو دوسروں کی بہتری کے لیے کیا جائے، آپ کے ذمے تقسیم، گفتار اور عمل کی بہت ساری زمہ داریاں ہیں ان کو ادا کرنا معمول بن جائے تو معاشرہ ویسے ہی حسین بن جاتا ہے،
رحمت کے عشرے میں یہ عمل جاری رکھیں گے تو مغفرت کے عشرے میں داخل ھوں گے، بنیادی طور پر یہ انعامات ہیں جو رمضان میں رکھ دئیے گئے ہیں، کون کون انہیں حاصل کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے پیش کر دیا ہے، بس ھاتھ بڑھانا ہے اور رحمت کو حاصل کر لینا ھے ایک بھوکے پیاسے کتے یا کسی پرندے کو پانی دینے سے لے کر ضرورت مندوں اور سفید پوش افراد کے معاون بن جائیں رحمتیں آپ کے آنگن کی وحشتوں کو نور میں تبدیل کر دیں گی ایک چیز ھے جسے تمرد کہتے ہیں انسان اللہ کا باغی اور سرکش نہ ہو جائے، اسی سرکشی میں نمرود ڈوب گیا تھا کیا وہ یہ خیال کرتا، مان لیتا اور اس دعوے سے دریا میں نہ اترتا تو بچایا جاتا مگر اس نے بغاوت ترک نہیں کی، گھمنڈ اور تکبر نہ چھوڑا غرق ہو گیا، رحمت سرکشی کے ھاں مسکن نہیں بناتی، وہ دور کہیں نرم مزاج، نرم خو اور درد دل رکھنے والوں کو تلاش کرتی ہے اور اس کو منور کر دیتی ہے، آپ کے پاس رجوع کرنے کے لیے ایک مہینہ رمضان کی صورت میں آیا ہے، قرآن مجید کھول کر دیکھ لیں بار بار وہ کہے گا کہ اللہ تعالیٰ مہربان، بہت شفیق اور رحم کرنے والا ھے، اس کے ”الرحمن” میں اتنی جاذبیت ھے کہ ”الرحیم” تک بندا رحمت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے، معاشرے میں عموما لوگ ایک دوسرے سے ناراض ھوتے ہیں، کدورت اور نفرت ان کے دلوں میں پروان چڑھ رہی ھوتی ھے، حسد کی آگ جلا رہی ھوتی ھے ایسے میں بڑا دل کریں اور معافی میں پہل کر دیں، یقین مانیں اللہ تعالیٰ بہت خوش اور رحمت انڈیل دے گا، قطع رحمی ترک کر کے صلح رحمی کو جگہ دیں، دامن میں وسعت لائیں رحمت ملے گی، اس عشرے میں رجوع ھی کر لیا جائے تو حالات بدل جائیں گے فرد کیا قوموں میں رحمت اور برکت آ جائے گی اللہ تعالیٰ کا غضب آپ سوچ کے دائرے میں ہی نہیں لا سکتے لیکن اس نے خود کہا ہے کہ میری رحمت، میرے غضب پر حاوی ہے، اس کی تلاش کیجیے جس کے لیے رمضان المبارک بہترین موقع ہے اسے ضائع نہ ھونے دیں، تدبر اور تفکر کو جگہ دیں اپنے آپ سوال کریں اور خود جواب تلاش کریں، یہی رحمت ھوگی، یہ وہ روشنی کی کرن ھوگی جو آپ کے دل کو بیدار کر دے گی اصل عبادت تو شروع ھی اس وقت ھوتی ھے جب ھم مصلے سے اٹھتے ہیں، جب جائے نماز سے اٹھ کر عبادت میں مشغول ہو گئے تو ہر لمحہ رحمتوں کا ھوگا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button