کالم

ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کا تجربہ

آزاد کشمیر حکومت کے جاری کردہ ڈرائیونگ لائسنس کی مدت معیاد 2020ء سے ختم تھی گزشتہ سال وطن گیا تو تجدید کا وقت نہ ملا پچھلے مہینے دوبارہ وطن گیا تو سوچا ری نیو کروا لوں حالانکہ اب یوکے ڈرائیونگ لائسنس کے بعد اس کی ضرورت نہیں ایسا محض اس لیے کیا کہ سرکاری اداروں میں کام کی غرض سے جانا عام آدمی کے حالات جاننے کا بہترین ذریعہ ہے. سب سے پہلے ایس ایس پی آفس کے کائونٹر سے پچاس روپے کا فارم لیا جس میں بنک چالان اور میڈیکل فارم تھا جس پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او)کی تصدیق درکار تھی۔فارم پر پاسپورٹ سائز کے فوٹو کا ہونا ضروری تھا DHQ میرپور پہنچا تو ڈی ایچ کیو میں کافی تبدیلی دیکھی پہلے (OPD) شعبہ ایمبرجنسی کے ساتھ ہوتی تھی اب تمام ڈاکٹرز حضرات وارڈز کی طرف نئی عمارت میں مریضوں کاچیک اپ کرتے ہیں. پتہ چلا لائسنس کا میڈیکل فارم کمرہ نمبر 5 سے فِل ہو گا انتظار گاہ میں رش کافی تھا تاہم ہمیں کاونٹر پر نام درج کروا کے اندر جانے دیا گیا رش شاید کسی اور وجہ سے تھا اندر تین خواتین بیٹھی تھی جو آپس میں گپ شپ کررہی تھی ایک میز کی دوسری طرف تشریف فرما تھیں جو یقیناً ڈاکٹر تھیں ایک ان کے ساتھ والی کرسی پر تھی جو ان کی اسسٹنٹ تھی جبکہ ایک ڈاکٹر کی کرسی کے سامنے بیٹھی تھیں تاہم معلوم نہیں وہ بھی شعبہ صحت سے وابستہ اپنی ڈیوٹی پر تھی یا یوں ہی بیٹھی تھی۔اسسٹنٹ نے ہمارا فارم فِل کیا ہم سے جو پوچھا گیا وہ صرف بلڈ گروپ تھا اس کے علاوہ کچھ پوچھا نہ چیک کیا ہم سے مراد میں اور میرا دوست ہیں اس کے پاس دبئی کا لائسنس تھا میرے ایکسپائر لائسنس پر بلڈ گروپ لکھا تھا لیکن اس کے دبئی کے لائسنس پر بلڈ گروپ نہیں تھا خون گروپ معلوم تو تھا لیکن ڈاکٹر نے اس طرح لکھنے سے انکار کردیا اسے ہسپتال کی ہی لیب سے بلڈ گروپ چیک کروانا پڑا جبکہ میرا فارم پُر ہوگیا۔اب اگلا مرحلہ تھا (DHO) ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی تصدیق۔ DHO آفس کے عملے کو فارم دیے، ہمارے علاوہ تین چار اور لوگ بھی موجود تھے، ہمیں باہر برآمدے میں انتظار کرنے کا کہا گیا،کچھ دیر کے بعد ایک صاحب باہر آئے اور فارم پر لکھے نام پکار کر ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے جمع کروانے کا کہا میرا کزن ساتھ تھا اس کا دفتری معاملات سے واستہ پڑتا رہتا ہے کہنے لگا پیسے دے دو تو فوراً تصدیق ہوجاتی ہے نہیں تو ویسے ہی بٹھائے رکھتے ہیں ہم سے کوئی DHO آفس میں نہیں گیا اور تصدیق کے ساتھ فارم خودبخود ہی واپس بھی مل گئے، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ایک انقلاب یہ ضرور دیکھا کہ اب بند کمرے میں مٹھی میں دینے والا زمانہ نہیں رہا بلکہ کھلے عام برآمدے میں رقم وصول کی جاتی ہے۔اب بنک میں فیس جمع کروانا تھی تقریباً تین ہزار فیس جمع ہوئی میرے دوست کی کم تھی تقریباً اٹھارہ سو۔بتایا گیا ری نیو کی فیس نئے سے زائد ہے فارم جمع کروانے آفس واپس گئے تو خوشی ہوئی اب محکمہ پولیس میں کافی خواتین کام کررہی ہیں وطن عزیز میں سرکار کے ملازمین سائل سے مسکرا کر اچھے سے بات کرنے کو جیسے گناہ سمجھتے ہیں ایسا ہی تجربہ جاتے ساتھ ہوا ایک اوورسیز خاتون کچھ پیپر لیے گھوم رہی تھیں کاونٹر کے پیچھے خاتون غصے میں اسے کہہ رہی تھیں” بتایا ہے یہ ایسے نہیں ہوسکتا” وہ کسی اور ڈاکومنٹ کا تقاضا کر رہی تھی اوورسیز خاتون باہر ایس ایس پی کے آفس کی طرف گئی اور ایک پولیس مین ساتھ لی آئی پولیس والے نے اس خاتون کے ڈاکومنٹس کاونٹر کے پیچھے والی خاتون کو پکڑواتے ہوئے کہا یار آپ کو ایک دفعہ کہا ہے اس کا کام کر دو سنتی کیوں نہیں ہو آپ کو پتہ ہے میں خود نہیں آیا کسی نے بھیجا ہے اب کاونٹر کے پیچھے بیٹھی خاتون کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اوورسیز خاتون سمیت سب کو کھا جانا چاہتی ہے۔اتفاق سے مجھے اسی خاتون کے پاس اپنے ڈاکومنٹس جمع کروانا تھے جس سے اب خوف سا محسوس ہورہا تھا فارم لینے کے بعد مجھے کہا گیا سات سو روپے دیں میں نے پوچھا یہ کس چیز کے، یہ کارڈ پرنٹنگ فیس ہے، اس سے پہلے میں مزید کچھ پوچھتا دوست نے کہا یہ فیس ہوتی ہے اتنے میں انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر،ایس ایس ایس میرپور کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے عملے اور کچھ سائلین سے بات کی میرے دوست کا یہ کہنا کہ یہ فیس ہوتی ہے میں شش و پنج کا شکار ہو گیا اس لیے آئی جی پولیس سے نہ پوچھ سکا کہ یہ نقد رقم کیوں وصول کی جارہی ہے جس کی کوئی رسید بھی نہیں ایک اچھا موقع ضائع کرنے کا دکھ ہے اب یہ سوال ذہن سے نکل نہیں رہا کہ اگر کارڈ پرنٹنگ کی فیس آفس میں نقدی وصول ہوتی ہے تو بنک میں کونسی فیس جمع ہوتی ہے اور اگر کارڈ پرنٹنگ کی کوئی اضافی فیس بنتی بھی ہے تو وہ ایک ساتھ بنک میں کیوں وصول نہیں کی جاتی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button