مشہور ضرب المثل ہے، ”نانی نے خصم کیا، بُرا کیا۔ کر کے چھوڑا اور بھی برا کیا”۔ آج کل وہی صورتِ حال پی ٹی آئی کو درپیش ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس ضرب المثل کے پس منظر پر نظر ڈالتے چلیں تاکہ بات کی سمجھ بہتر طور پر آ سکے۔
ایک بوڑھی خاتون نے اپنی تنہائی ختم کرنے کے لیے ضعیف العمری میں شادی کر لی۔ لوگ اس شادی پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ اس خاتون کا ایک نوجوان نواسا تھا۔ وہ اپنے دوستوں میں بیٹھا تھا۔ بے تکلف یار دوستوں نے اسے مذاق ہی مذاق میں طعنے دینے شروع کر دیے کہ نانی اماں کے منہ میں دانت ہے نہ پیٹ میں آنت، انہیں اس بڑھاپے میں دلہن بننے کی کیا سوجھی۔ دوستوں کے طعنوں کی وجہ سے غصے سے بھرا ہوا نوجوان نواسا اٹھا اور نانی کے پاس پہنچ کر اسے خوب برا بھلا کہا۔ اسے شکوہ تھا کہ نانی نے بڑھاپے میں شادی کر کے دوستوں میں اس کی ناک کٹوا دی ہے۔ اس کا ایک ہی اصرار تھا کہ نانی اپنے خاوند سے فوراً طلاق حاصل کرے۔ نانی نے انکار کیا تو اس نے نانی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور بالآخر اسے طلاق لینے پر مجبور کر دیا۔ جب نانی طلاق لے چکی تو فخریہ انداز میں اپنے دوستوں کے پاس پہنچ کر انہیں بتایا کہ نانی نے طلاق لے لی ہے جس پر دوستوں نے کہا کہ یہ تم نے کیا کر دیا۔ نانی کے ماتھے پر بڑھاپے میں شادی کا بدنما داغ لگ گیا تھا مگر اس عمر میں طلاق لے کر نانی کی بدنامی کا داغ مزید نمایاں کر آئے ہو”۔خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو واپس پی ٹی آئی میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہمارے نمبر مکمل ہوئے تو حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئے گی اور عمران خان وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔ مینڈیٹ چور خود بھاگ جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنے والے پانچ چھ ماہ میں حکومت کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے حوالے سے ہم نے بہت مشاورت کی تھی۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔ اُس وقت ہمارے پاس آپشن بہت کم تھے۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل رہنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس جماعت میں شامل رہیں گے مگر دونوں پارٹیوں کو ضم بھی کریں گے۔ ادھر بیرسٹر علی ظفر نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مجلسِ وحدت المسلمین کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ ہوا تھا۔ اگلے دن یہ فیصلہ تبدیل ہو گیا۔ شیر افضل مروت نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کو غلطی قرار دیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے پی ٹی آئی لیڈرشپ کے بیانات پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے دوست اپنے معاملات گھر میں حل کریں تو بہتر ہے۔اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ”سنی اتحاد کونسل کا فیصلہ عمران خان نے خود کیا تھا۔ میری طرف سے درخواست نہیں کی گئی تھی۔انتخابی نشان سے لے کر مخصوص نشستوں تک میرے پاس بتانے کو وہ کچھ ہے کہ اگر میں نے بھی ٹاک شوز میں بیٹھ کر کچھ بول دیا تو کئی لوگ شکل دکھانے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ میری کمٹمنٹ عمران خان کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گی”۔دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے پاس نامور وکلا ء کی ایک پوری فوج موجود ہے۔ لطیف کھوسہ، علی ظفر، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت سمیت بڑے بڑے وکلا ء جب سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے انہوں نے آئین اور قانون گھول کر پی رکھا ہے مگر ان سب کو سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد کرتے وقت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس پارٹی نے تو اپنے پلیٹ فارم سے کسی ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن ہی نہیں لڑا اور آگے چل کر اتحاد کی صورت میں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہ وہ بات ہے جسے ہر پڑھا لکھا شخص سمجھ رہا تھا مگر پی ٹی آئی کے نامور وکلا ء یہ سمجھنے سے قاصر رہے۔بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کا سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کو غلطی قرار دینا ظاہر کرتا ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کے مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے سے متفق ہیں۔
اب آتے ہیں سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد عمر کے بیان کی جانب۔ ان کا بیان نانی کے خصم اور طلاق والی ضرب المثل کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ انہیں شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کٹوا چکے ہیں اور اب بے بس و بے اختیار ہیں۔ گو ان کی پارٹی کا سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد ہوا ہے مگر ان کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کا سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد نہیں بلکہ شمولیت ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں خود اسد قیصر سمیت ان کے تمام منتخب اراکین اسمبلی کے لیڈر جناب عمران خان نہیں بلکہ صاحبزادہ حامد رضا ہیں۔ اگر صاحبزادہ حامد رضا اور عمران خان کے درمیان کسی پارلیمانی معاملے میں ٹکرائو پیدا ہو گیا تو اراکین کو آئینی طور پر صاحبزادہ حامد رضا کی بات ماننا پڑے گی۔ کیونکہ یہ اراکین پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ سنی اتحاد کونسل کے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں انہیں آزاد ارکان کہا ہے مگر آگے چل کر بہت سی قانونی موشگافیاں سامنے آئیں گی۔ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف بطور سنی اتحاد کونسل سپریم کورٹ جا رہی ہے۔ معاملات بہت گنجھلک ہوتے جا رہے ہیں۔ مستقبل میں ایسی صورتِ حال پیش آ سکتی ہے کہ صاحبزادہ حامد رضا اور عمران خان کے درمیان کسی قانون سازی پر اختلاف رائے پیدا ہو جائے۔ پارٹی کے ایم این ایز پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیں اور صاحبزادہ حامد رضا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان کی رکنیت کے خاتمے کے لیے خط لکھ دیں۔ گویا پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کی
طلاق یا خلع اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے ممبران منتخب اراکین اپنی اسمبلی رکنیت سے استعفے دے کر ہی ممکنہ طور پر پارٹی میں واپس جا سکتے ہیں۔ جہاں تک دونوں پارٹیوں کے انضمام کا تعلق ہے تو صاحبزادہ حامد رضا اتنے بھی بچے نہیں ہیں کہ مفت ہاتھ آئی طاقت کو گنوا دیں گے۔
0 42 4 minutes read