کالم

زبان کی حفاظت

حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا، یا رسول اللہ ۖ نجات کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اپنی زبان کو بری باتوں سے روکو۔
حضرت سفیان بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ دربار رسالت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ ۖ ! آپ میرے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو سرکار مدینہ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، اسے۔ (ترمذی شریف)
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضا سے بڑھ کر ہے۔زبان سب سے زیادہ ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ لہذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لیے بڑی کوشش و جدوجہد کی ضرورت ہے۔
( زبان کی حفاظت قران اور سنت کی روشنی میں سے اقتباس )
ان تمام احادیث کو پڑھکر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میری یہ تحریر دراصل ” زبان کی حفاظت ” سے متعلق ہے یعنی اس تحریر کا عنوان زبان کی حفاظت ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں بیشمار جسمانی نعمتوں سے نوازہ ہوا ہے دیکھنے کے لیئے دو آنکھیں تو سننے کے لیئے دو کان عطا کیئے ہیں چلنے پھرنے کے لیئے دو ٹانگیں تو کام کاج کے لیئے دو ہاتھوں کی نعمتوں سے نوازہ ہوا ہے وہیں اس باری تعالی نے بولنے اور گفت و شنید کے لیئے ہمیں زبان جیسی نعمت سے بھی نوازہ ہوا ہے جس طرح نیکیوں اور گناہوں کے عمل میں جسم کے ہر عضو کے شامل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے یعنی جسم کے ہر عضو سے ہم نیکیوں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں وہاں ان کے سبب گناہوں کا ارتکاب بھی ہم سے ہوجاتا ہے لیکن ایک انسان سب سے زیادہ گناہ اپنی زبان کے سبب کرتا ہے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو چپ رہا وہ سلامت رہا ” یعنی اول فول بولنے سے بہتر ہے کہ گناہوں سے بچنے کے لیئے جتنا ہوسکے خاموش رہیں کہ خاموش رہنا بہتر ہے یعنی یہ سمجھ لیجیئے کہ ” ایک چپ سو سکھ ” کیمائے سعادت جیسی متبرک کتاب میں حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ زبان دراصل عجائبات صفات الہی کی ایک بڑی صفت ہے یہ عقل کی نائب کہی جاتی ہے اور عقل سے باہر کچھ بھی نہیں ہے حالانکہ یہ ایک بغیر ہڈی کے گوشت کا ٹکڑا ہے ۔ امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عقل میں جو کچھ آتا ہے زبان اسے بیان کردیتی ہے اور انسان کے کسی عضو میں کوئی ایسی صفت نہیں ہے ( منہاج العابدین ) میں امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت یونس ابن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ” میرا نفس بصرہ جیسے گرم شہر میں گرمی کے دنوں میں روزہ رکھنے کی طاقت تو رکھتا ہے لیکن فضول گوئی سے زبان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا "۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6477 جس کے راوی ہیں حضرت ابویریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
” بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں ( کتنی کفر اور بے ادبی والی بات ہے ) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنا مشرق سے مغرب ” یعنی بعض اوقات ہم جانے انجانے میں اپنی زبان سے ایسی بات نکال دیتے ہیں جس کی اہمیت کا ہمیں اندازہ تک نہیں ہوتا اور ہم جہنم کی طرف چلے جاتے ہیں اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو یعنی پہلے بات کو سمجھ لو پھر زبان سے نکالو ۔صحیح بخاری کی اگلی حدیث یعنی حدیث نمبر 6478 جس کے راوی بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ” بندہ اللہ تعالی کی رضامندی کے لیئے کوئی بات کرتا ہے مگر اسے وہ اہمیت نہیں دیتا لیکن اللہ رب العزت اس کی وجہ سے اس کے درجات میں بلندی عطا فرماتا ہے جبکہ دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اور وہ بھی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلاجاتا ہے "۔صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کا تذکرہ کرنا میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں جس کا نمبر ہے 6807 اور اس حدیث کے راوی ہیں سہل بن سعد سعدی رضی اللہ تعالی عنہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جس نے مجھے اپنے دونوں پائوں کے درمیان یعنی ( شرمگاہ ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان یعنی ( زبان ) کی ضمانت دیدی تو میں اسے جنت میں جانے کا بھروسہ دلاتا ہوں "۔مطلب یہ ہے کہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کی بھی بڑی سخت تلقین کی گئی ہے اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید کی سورہ البلد کی آیت نمبر 8 اور 9 میں ارشاد فرمایا کہ ترجمعہ کنزالایمان ” کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں اور زبان اور دو ہونٹ "یعنی اللہ تبارک و تعالی کی نعمتوں میں سے زبان بھی ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہے گو کہ یہ ایک چھوٹا سا گوشت کا ٹکڑا ہے لیکن اس کے کرشمے بھی بڑے بڑے ہیں اس کا صحیح استعمال ذریعہ حصول ثواب بھی ہے اور اس کا غلط استعمال وعید عذاب بھی ہے اسی لیئے شریعت میں کثرت کلام سے منع فرمایا گیا ہے زبان جسم کا وہ عضو ہے جس کے صحیح استعمال سے ہم اپنے نامئہ اعمال میں نیکیوں کا انبار لگاسکتے ہیں اور غلط استعمال سے اپنی آخرت کو برباد بھی کرسکتے ہیں زبان کے استعمال سے انسان کے عقل و شعور اور تربیت کا اندازہ ہوتا ہے انسان کے دماغ میں جو کچھ بھی چل رہا ہوتا ہے زبان اسی کو باہر نکال دیتی ہے اس کا مثبت استعمال دوسروں کے دلوں میں جگہ بنانے میں بھی کامیابی ہوتی ہے اور اس کے غلط استعمال سے اللہ تبارک وتعالی کی ناراضگی بھی ظاہر ہوتی ہے ۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ انسان سب سے زیادہ غلطیاں اس زبان سے ہی کرتا ہوا نظر آتا ہے اس لیئے عقل و شعور والے لوگ بہت سوچ سمجھ کر زبان کا استعمال کرتے ہیں سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے زبان کے استعمال کو ہی زبان کی حفاظت کرنا کہا جاتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button