کالم

تیزی سے پھیلتی بے نوری !

بھارت کو اندھوں کا گھر کہا جاتا ہے۔اللہ نہ کرے ہمارا پیارا پاکستان ”اندھوں کا گھر” کہلانے لگے کیوں کہ یہاں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت تیزی سے بے نوری پھیل رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 26 لاکھ نابینا افراد بستے ہیں۔شوگر کا مرض بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی تیزی سے متاثر ہورہی ہے۔ پچیس کروڑ لوگوں کیلئے نہ ماہرین امراض چشم ہیں نہ ہی آنکھوں کے بڑے ہسپتال ۔پرائیویٹ شفا خانے بہت مہنگے ہیں ۔عام آدمی بصارت کی کمزوری کو اللہ کی رضا سمجھ کر زندگی اندھیروں کی نذر کر دیتا ہے۔ دیگر امراض چشم کے علاوہ معصوم بچوں کی آنکھوں میں کینسر جیسے بڑھتے موذی مرض نے والدین کے دکھ میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔بصارت کے ان مخدوش حالات میں الشفاء آئی ٹرسٹ جیسے جدید طرز کے اداروں کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں۔ عام کینسرکا علاج بھی انتہائی مہنگا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔آنکھوں کے کینسر کے علاج کیلئے بھی کیموتھراپی چاہیے جس کا خرچہ برداشت کرنا غریب آدمی کیلئے ممکن ہی نہیں۔الشفاء ٹرسٹ کے موجودہ صدر جنرل(ریٹائرڈ) رحمت خان نے فیصلہ کیا کہ کینسر سنٹر بھی قائم کیا جائے۔ الشفاء آئی ہسپتال راولپنڈی کے احاطے میں ایشیا کے سب سے بڑے نو تعمیر شدہ الشفائ چلڈرن آئی ہسپتال کے اندر ہی اسٹیٹ آف دی آرٹ چلڈرن آئی کینسر سنٹر قائم کردیا گیا۔ جنرل صاحب نے بتایا کہ اس سنٹر کیلئے کروڑوں روپے کا بجٹ درکار تھا۔خصوصا کیموتھراپی بے حد مہنگا عمل ہے۔لیکن الشفائٹرسٹ کے ڈونرز نے بھر پور ساتھ دیا۔اب اس سنٹر میں 80 فیصد بچوں کا مفت علاج ہورہا ہے۔ملک کے دور دراز علاقوں سے علاج کی تلاش میں والدین یہاں پہنچتے ہیں اور الشفاء کے روشنی بانٹنے والے ہاتھ ان کے معصوم بچوں کو تھام لیتے ہیں۔بڑے اطمینان کی بات یہ کہ فری اور فیس ادا کرنیوالوں کو ایک جیسی معیاری سہولیات مل رہی ہیں۔آنکھوں کے پیچیدہ سے پیچیدہ مرض کے علاج کیلئے کسی مریض کو اندرون ملک خوار ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی بیرون ملک قیمتی زرمبادلہ لٹانے کی مجبوری ۔ایک چھت کے نیچے جدید ترین طریقہ علاج کے تمام مراحل مکمل ہوتے ہیں۔سفید موتیا،کالا موتیا اور قورنیہ کے سبب ڈوبتی بصارتوں کی بحالی کا علاج ٹرسٹ کے ہر ہسپتال میں میسر ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر ان ہسپتالوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔راولپنڈی میں پہلے الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال کی بنیاد 1985ء میں رکھی گئی۔ پھر کوہاٹ،سکھر،مظفرآباد،چکوال میں ہسپتال بنے۔اب گلگت کا رخ ہے۔اس کے علاوہ ملک گیر آوٹ ریچ پروگرام،آئی بنک،لائٹ ہاؤس اور ریسرچ سنٹر موجود ہیں۔قارئین ! آپ یا آپ کا کوئی پیارا،کوئی قریبی آنکھوں میں کسی قسم کی تکلیف محسوس کرے تو اسے امراض چشم کے کسی ماہر سے چیک اپ کرانے پر آمادہ کریں۔اگر کوئی پیچیدہ مرض ہے تو فوری طور پر اپنے صوبے میں قائم الشفائ ٹرسٹ آئی ہسپتال کا رخ کریں۔آپ فیس ادا نہیں کرسکتے تو یہاں خود کو غریب ثابت کرنے کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ الشفائ آئی ہسپتال میں آپکی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی۔صدر ٹرسٹ جنرل رحمت اپنے پیش رو جنرل حامد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹرسٹ کے بانی جنرل جہانداد(جنت نصیب) کے دئے ہوئے مشن کو پورا کر رہے ہیں کہ،” فیس ادا کرنے والے صاحب استطاعت مریض جس جدید اور مہنگے علاج سے مستفید ہوتے ہیں،بغیر فیس مریضوں کو بھی وہی علاج اور سہولت ملے گی "الشفاء ٹرسٹ کے چھ ہسپتالوں میں گزشتہ تیس سالوں کے اندر تین کروڑ سے زائد افراد کا علاج کیا چکا ہے۔80 فیصد لوگوں کا مفت علاج ہوا۔جبکہ نو لاکھ افراد کی سرجری بھی کی جا چکی ہے۔ہر مہینے تقریباً دس لاکھ افراد ٹرسٹ کے ہسپتالوں میں علاج کے لئے آتے ہیں جبکہ ماہانہ دس ہزار آپریشن بھی کئے جاتے ہیں۔تفصیلات کیلئے ادارے کی ویب سائٹ وزٹ کی جاسکتی ہے۔
https://alshifaeye.org اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کی بصارت کی بحالی کے اخراجات سالانہ چار ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جن میں سے ستر فیصد اخراجات عطیات کے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں۔ملک میں بڑھتے بصارت کے مسائل کا ٹھیک اندازہ لگانے کیلئے عالمی ادارہئ صحت کی نگرانی میں نیا سروے کروایا جائے۔ تاکہ اصل صورتحال کا مکمل ادراک ہو سکے اور نابینا پن روکنے کیلئے حکومتی سطح پر بھی پر موثر اقدامات کئے جا سکیں۔اگر ہم الشفاء آئی ٹرسٹ جیسے اداروں کا ساتھ دیں تو ملک کو اندھوں کا گھر بننے سے بچا سکتے ہیں اور بے نور آنکھوں کا نور لوٹا سکتے ہیں۔ ملک میں بے نوری کو پھیلنے سے روکنا اور آنکھوں کی دیدہ وری کو قائم رکھنا انسانیت اور پاکستان کی عظیم خدمت ہے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button