کالم

رمضان کا روزہ اور اسلام کا روزہ

رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے جس کے فضائل و برکات ہم اکثر پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں لیکن اس مہینے کے اصل ثمرات و برکات فقط ان لوگوں کو ہی حاصل ہوتے ہیں جو روزے کا پورا حق ادا کرتے ہیں یعنی خود کو ہر طرح کی برائی سے بچاتے ہوئے نیکیوںمیں سبقت لے جانے کی کوشش کرے۔ اس مہینے میں انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا مقصود نہیں ہے بلکہ روزے کا اصل مقصد وہ ہے جو اللہ نے خود بیان فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیںتا کہ تم متقی بن جاؤ۔ اب اگر کوئی شخص سارا دن روزہ رکھ کر بھی گناہوں سے نہیں بچتا تو اسے روزے کے فوائد و برکات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اسے بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کی خواہشات میں کھانے پینے سے طاقت آتی ہے اور وہ انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہیں ، اگر پیٹ بھوکا ہو تو انسان کا میلان گناہوںکی طرف کم ہوتا ہے ۔ لہٰذا روزہ دار کا اکثر بڑے گناہوں کی طرف تو رجحان نہیں ہوتا لیکن بہت سے ایسے گناہ انسان سے سرزد ہوتے رہتے ہیں جن کی اسے خبر ہی نہیں ہوتی جیسے جھوٹ ، غیبت ، بدنظری وغیرہ ۔ اسی طرح کچھ دوستوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ آج تو روزے کا پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ میں نے آج تین فلمیں دیکھی ہیں یعنی روزے میں وقت گزاری کے لیے فلمیں دیکھتے رہتے ہیںتو ایسے روزے کے بدلے میں سوائے سر سے فرض اترنے کے کچھ بھی نہیںملتا۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سحری کے وقت اتنا کھاتے ہیں کہ نماز پڑھنی بھی مشکل ہو جاتی ہے اس کے بعد سارا دن سوئے رہتے ہیں انہیں روزے کی مشقت کا کچھ حصہ بھی حاصل نہیں ہوتا ایسے لوگ گناہوں سے تو بچے رہتے ہیں لیکن اس اجر و ثواب کو حاصل نہیں کر سکتے جو انسان کو روزے کی مشقت برداشت کرنے پر ملتا ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ روزہ رکھ کر ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے ہیں وہ تو ثواب میں سونے والوں سے کہیں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دراصل ایک مہینہ مشقت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس میں ہر دم اللہ کی اطاعت کی مشق کرے اور پورا سال اسی طرح اللہ کی اطاعت میں گزار دے ۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ رمضان کا روزہ چھوٹا روزہ ہے جبکہ اسلام کا روزہ بڑا روزہ ہے ۔ رمضان کا روزہ سحری سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے جبکہ اسلام کا روزہ بلوغت سے شروع ہوتا ہے اور موت پر افطار ہوتا ہے ۔ رمضان کا روزہ اسی اسلام کے روزے کی مشق ہے کہ انسان ایک مہینہ روزہ رکھ کر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی مشق کرتا ہے تاکہ پورا سال اسی طرح گزار سکے ۔ ہم پورا سال فرض نمازوں کی ادائیگی میں سستی کرتے رہتے ہیں لیکن رمضان میں نمازیں شروع کر دیتے ہیں یہ بھی اچھی بات ہے کہ کم از کم ایک مہینہ تو نماز ترک کرنے کے گناہ سے محفوظ رہتے ہیں لیکن اس سے ہماری نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ ہم رمضان کی وجہ سے ساری نمازی پڑھ رہے ہیں پھر جیسے ہی رمضان ختم ہوتا ہے تو ہم بھی مسجدوں سے غائب ہو جاتے ہیںحالانکہ ہماری نیت اس میں مشق کی ہونی چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں پوری نمازیں اس لیے پڑھیں گے کہ ایک مہینہ تک پابندی کے ساتھ نمازیں پڑھنے سے ہم نمازوں کے عادی ہو جائیں اور پھر پوری زندگی اسی طرح نمازیں ادا کریں ۔ احادیث مبارکہ میں روزے میں جھوٹ ، غیبت اور دیگر گناہوں سے تو منع کیا گیا ہے لیکن یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اس مہینے میں نمازوں کی پابندی بھی کرو یا ان کی مشق کرو تا کہ پورا سال نمازیں ادا کرتے رہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں یہ تصور ہی نہیں تھا کہ ایک مسلمان ہو اور وہ نماز ترک کر دے بلکہ احادیث مبارکہ سے ہی ثابت ہے کہ اس زمانے میں تو منافقین کی بھی نماز ترک کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور جو شخص دو لوگوں کے سہارے گھسٹ کر بھی مسجد میں جا سکتا تھا تو اسے بھی لا کر صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ یہ آج کے مسلمان ہیں جو کھلم کھلا نمازیں ترک کر دیتے ہیں اور اسے کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتے ۔ اس لیے اس مہینہ میں اگر ہم نمازیں پڑھتے ہیں تو اس سے ہماری یہ نیت ہونی چاہیے کہ یہ پورا سال نمازیں پڑھنے کی مشق ہے ۔ اسی طرح اپنے روزے کو بچانے کے لیے تمام گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ جھوٹ ، غیبت ، بدنظری جیسے گناہ جنہیں ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے یہ روزے کو تباہ کر دیتے ہیں۔بہت سی اور گزارشات بھی اس حوالے سے کرنا چاہتا تھا لیکن تحریر کی طوالت کے خوف سے گفتگو کو سمیٹتا ہوں کہ رمضان المبارک کا مہینہ خود کو گناہوں سے دور رکھ کر گزارنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی نیک اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ نوافل ، اذکار اور تلاوت کلام پاک کا خصوصی طور پر اہتمام کرنا چاہیے ۔ بالخصوص گزشتہ قضا نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہیے اور نوافل سے پہلے انہیں ادا کرنا چاہیے کیونکہ فرض نمازوں کے بارے میں پوچھ ہو گی پھر اگر وقت مل جائے تو نوافل بھی ادا کرلینے چاہئیں ۔ رمضان میں اس کی خیرو برکات سمیٹنے کے لالچ میں زیاد ہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ یہ نیت ہو کہ ہم ایک مہینہ نیکیوں کی عادت ڈالیں گے پھر رمضان کے بعد اس عادت کو خراب نہیں کریں گے بلکہ اسی کے مطابق پورا سال بلکہ پوری زندگی گزاریں گے ۔تب رمضان المبارک کے صحیح ثمرات ہمیں نصیب ہوں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button