کالم

معیار تعلیم کی بہتری کیسے ممکن ہے؟

سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ نصاب کو اغلاط سے پاک کیا جا?۔ اس موجودہ نصاب میں اغلاط کی بھر مار ہے۔ اور یہ اغلاط املا کی بھی ہیں اور جملوں کی بھی۔یہ اغلاط جہاں بچے کے ذہن میں رچ بس جاتی ہیں وہیں اساتذہ کو بھی پریشان کرتی ہیں۔ بسا اوقات ایسے غلط، بے ڈھنگے اور پیچیدہ جملے ہوتے ہیں جس سے اساتذہ بھی ڈگمگا جاتے ہیں اور ان کے غلط اور درست کا فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے دوسرا یہ کہ نصاب ترتیب دیتے وقت ماہرین کو چاہیے کہ طلبہ کی عمر اور ذہنی سطح کو مد نظر رکھیں۔اور آسان سے مشکل کے اصول پر چلنے کی کوشش کریں ہمارے ہاں اللہ معاف کرے ماہرین نصاب ترتیب دیتے وقت بچے کو بھول جاتے ہیں اور اپنی وسعت علمی دکھانے لگ جاتے ہیں اس طرح بچہ نصاب سے متنفر ہو کر سکول سے بھاگنے لگ جاتا ہے۔ نرسری(قاعدہ) سے پانچویں جماعت تک صرف تین کتب 1. اردو 2. انگریزی اور 3. ریاضی ہونی چاہیں باقی سب ختم کر دی جا?یں اگر اسلامیات یا معاشرت کا کو?ی سبق ضروری ہو تو اسے اردو کی کتاب ہی میں رکھا جائے۔چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کتب کی تعداد دس سے کم کر کے سات کتب تک لایا جائے۔ 1.اردو 2.انگریزی.3.ریاضی 4.سائنس 5.اسلامیات 6.کمپیوٹر 7.معاشرتی علوم جماعت نہم اور دہم کا نصاب تعدد کتب کے لحاظ سے تقریباً درست ہے۔ تاہم اس میں بھی ایک آدھ کتاب کی کمی کی جا سکتی ہے اگر کمی نہیں کرتے تو کم از کم اتنا کریں کہ سال بہ سال ان میں اضافہ نہ کریں۔کتب سے بے جا اور غیر ضروری مضامین نکال کر ان کا سائز کم کیا جائے۔ اس سے ایک فا?دہ یہ ہو گا کہ بچے کے بستے کا وزن کم ہو گا اور دو دوسرا نصاب تدریسی دورانیے میں آسانی سے ختم بھی ہو جائیگا۔ طویل نصاب طلبہ اور اساتذہ دونوں پر ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے طویل نصاب تدریسی دورانیے میں ختم نہ ہو سکنے کے خوف سے اساتذہ جلدی جلدی اور تیزی سے نصاب ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح نہ تو بچے کی تفہیم اچھی ہوتی ہے اور نہ ہی استاد مطمئن رہتا ہے۔نصاب میں مشقی سوالات کی بھرمار کو کم کیا جائے۔ مشقی سوالات متعلقہ سبق سے کہیں زیادہ ہیں ان میں غیر ضروری اور طویل سوالات کو نکال دیا جائے۔ان کی جگہ مختصر اور معروضی قسم کے سوالات کو جگہ دی جائے۔ آج دنیا معروضیت کی طرف جارہی ہے NTS,PSC اور CSS میں بھی معروضی طرز کے سوالات آتے ہیں۔ یہاں طویل سوالات بچے کو سمجھے بغیر رٹا لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور رٹا سسٹم حصول تعلیم کے لیے کسی طور درست نہیں۔اسباق گھسی پٹی فرضی داستانوں کی بجا? حقیقت اور سچائی پر مبنی ہونے چاہیں۔ ایسا نصاب ہونا چاہیے جس سے بچے کے اندر اخلاص، ہمدری، للّٰہیت، حب الوطنی اور بہادری جیسے جذبات پیدا ہوں۔ اور اپنے مشاہیر سے محبت اور ان کی مثالی زندگیوں کے مطابق چل کر معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔نصاب میں عملیت کا عمل دخل بھی ضروری ہے اس کو عملی کام / پریکٹیکل کے ساتھ لنک ہونا چاہیے اس سے طلبہ کے اندر تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں اور طلبہ میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے اور تفہیم کا شوق پیدا ہوتا ہے جبکہ اکثر اداروں میں میٹرک کے پریکٹیکل بھی زبانی ہوتے ہیں۔ اس سے طلبہ مزید بور ہوتے ہیں اور ان میں تخلیقی صلاحیتیں مردہ ہو جاتی ہیں۔درس و تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ اور اساتذہ کے تعلیمی اور تحقیقی اسفار (ٹورز) بھی ہونے چاہیں۔”سفر آدھا علم ہے” اس سے طلبہ کو نئی نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں نئے نئے تجربات ہوتے ہیں یہ اسفار طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوں گے۔ یہ اسفار دیگر تعلیمی اداروں کے بھی ہونے چاہیں اور تاریخی مقامات کے بھی۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ جب طلبہ اور اساتذہ کتاب کھولیں گے اور پڑھنے پڑھانے کا کام کریں گے تو ان کے سامنے سارا نقشہ آجائے گا اور تفہیم کا عمل آسان ہو کر رٹنے رٹانے سے جان چھوٹ جائیگی۔ دوسرا یہ کہ جب دیگر اداروں کے تعلیمی نظام کو دیکھیں گے تو ان کی خوبیوں اور خامیوں کو دیکھ کر اپنے اندر اصلاح و تجدید کر سکیں گے۔اسٹاف / اساتذہ کی کمی کو بروقت پورا کیا جانا چاہیے۔ اس وقت شدید تعلیمی ہرج ہوتا ہے جب کو?ی استاد ریٹائے رڈ ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے اساتذہ کی پوسٹ خالی ہو جائور اس جگہ مہینوں بلکہ سالوں اسی طرح خالی رہتی ہے نہ تو نئی اپوائینٹمنٹ / تقرری ہوتی ہے اور نہ ہی متبادل انتظام کیا جاتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ کسی پرائے مری تعلمی ادارے میں دو ہی اساتذہ ہوں اور ان میں سے بھی ایک ریٹارڈ ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے چلا جائییا کسی مڈل یا ہائیی سکول میں اسٹاف کی کمی ہو یا کسی ادارے میں سرے سے پوسٹیں ہی کم ہیں وہاں تو ان سورتوں میں طلبہ کا شدید تعلیمی ہرج ہوتا ہے عمارات کی خستہ حالی بھی نظام تعلیم میں دقت کا باعث بنتی ہے۔ ہمارے یہاں زیادہ تر عمارت نئی اور شاندار بن چکی ہیں مگر چند ایک عمارات بالکل مخدوش اور خستہ حال ہیں جو معمولی سے زلزلے کے جھٹکے سے گر سکتی ہیں اور موسمی شدت بھی برداشت نہیں کر سکتیں بارش میں چھتیں ٹپکنے اور عمارت کے گرنے کے خوف سے بچے عمارت کے اندر نہیں بیٹھ سکتے اس لیے مجبوراً ادارے میں چھٹی کرنی پڑتی ہے چھے کلاسوں اور 150 بچوں کے لیے ایک کمرے کی عمارت ایک اذیت ناک مسئلہ ہے۔ موسم معتدل ہو تو بچے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر گزارا کر لیتے ہیں مگر دھوپ کی شدت اور معمولی بارش میں آموزش کا سلسلہ قطعی برقرار نہیں رہ سکتا۔ لہذا اس طرف بھی توجہ دینی پڑے گی۔اسی طرح اصلاح معاشرہ، خوف خدا اور فکر آخرت کی غرض سے ہر ادارے میں ہفتے میں ایک دو بار کسی نیک بزرگ عالم دین کا لیکچر رکھا جا? تاکہ اساتذہ اور طلبہ میں خدا خوفی آخرت کی فکر اور اپنی زمہ داریوں کا احساس ہوتا رہے۔ اس طرح تیار ہونے والے فرد میں فکر آخرت اورخدا خوفی کے ساتھ ساتھ ثواب اور نیکی کے جذابات رچ بس گ?ے تو اس میں حرص، طمع اور لالچ جیسی قبیح چیزیں نکل کر اس میں ایثار، ہمدردی اور معاونت جیسے جذبات پیدا ہوں گے۔اور معاشرے کو بہترین انسان ملیں گے اور تشکیل پانے والا معاشرہ صحیح معنوں میں انسانوں کا معاشرہ ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button