
گزشتہ چند دنوں سے دارالحکومت مظفرآباد کے وسط میں نو تعمیر شدہ شاہ سلطان پل عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر بھی آج کل اس پر بنائی گئی ویڈیوز وائرل ہوتی نظر آتی ہیں، کوئی اس کی تعریف تو کوئی اس کی تعمیر پر تنقید کرتا نظر آرہا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ عوام تک وہ حقائق پہنچائے جائیں جن کا لوگوں کو علم نہیں. دراصل یہ منصوبہ زلزلے کے بعد نو تعمیراتی پلان اور ٹریفک کے دباو کو کم کرنے کے لیے بنایا جانا تھا اور اس کا سنگ بنیاد گزشتہ حکومت کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے رکھا اب چونکہ منصوبہ عوامی فلاحی نوعیت کا تھا جس کی تخمینہ لاگت 80 کروڑ رکھی گئی تھی اور اس کا ڈیزائن موجودہ ڈیزائن سے تھوڑا مختلف تھا، اگر آپ گاڑی پر سفر کررہے ہو تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ پل کے دونوں جانب سیدھی سڑک ہے اور پھر پل پر مڑنے کے لیے گاڑیوں کو تقریباً 90 ڈگری کا موڑ مڑنا پڑتا ہے جس سے تیز رفتار گاڑیوں کا اس کے داخلی راستے پر ٹکرانے کا احتمال بڑھ گیا ہے جبکہ دوسری جانب پرانے اڈے سے بھی اس کا لنک ایسا بنایا گیا ہے جس سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ داخلی راستہ اڈے کاہے لیکن اس راستے سے گاڑیاں باہر بھی نکل رہی ہیں جس سے اس مقام پر دن کے اوقات میں رش برقرار رہتا ہے، ٹریفک کے دباو کو کم کرنے کیلیے بنائے جانے والے منصوبوں پر پہلے انجینئرنگ کی جاتی ہے پھر اس حوالے سے عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے اور پھر اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے لیکن یہاں پر انجینئرنگ کے بعد پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی ٹریفک پلان نہیں بنایا گیا، پل کاسنگ بنیاد رکھنے کے بعد اس وقت شہر سے منتخب ایم ایل اے جو اس سنگ بنیاد پر تو موجود نہ تھے البتہ بعد ازاں وہ پل کے ڈیزائن سے مطمئن دکھائی نہ دیے، اس حوالے سے مختلف باتیں ہوتی رہی جن میں قابل ذکر یہ تھا کہ پل کے ایک جانب موجود ایچ بی ایل بینک والی جگہ جو پہلے ڈیزائن میں شامل تھی کو بچانے کے لیے پل کا ڈیزائن تبدیل کیا گیا اور متبادل روٹ بھی زیر غور لائے گئے اور بالآخر نیا ڈیزائن بنوایا گیا اور موقف یہ اختیار کیا گیا کہ جس پل پر 80 کروڑ لگنے تھے اب اس پر صرف 31 کروڑ لگے گے چنانچہ اس کے بعد اس پل کا ٹینڈر شائع کیا گیا جسے تعمیراتی کمپنی زیڈ کے اے نے 26 کروڑ روپے میں حاصل کیا اور ٹینڈر جو پیپرا رولز کے مطابق شائع کیا گیا تھا، اس ٹینڈر میں یہ شرط بھی تھی کہ پل کو 2 سال میں تعمیر کیا جائے گا اور یہ ٹینڈر 6 اکتوبر 2020 کا شائع کیا گیا تھا جس کے بعد متعلقہ کمپنی کے مطابق انہوں نے اس پر کام کا آغاز 21 جون 2021 کو کیا جبکہ کلکٹر حصول اراضی کے رکارڈ کے مطابق 10 مارچ 2021 کو ایوارڈ جاری کیا گیا اور اپریل میں ہی پل کے ستونوں کے لیے جگہ متعلقہ کمپنی کا فراہم کردی گئی تھی لیکن اگر ہم تعمیراتی کمپنی کے رکارڈ کو ہی مان لیں تب بھی اس ٹینڈر کے مطابق 21 جون 2023 تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا لیکن پل کا افتتاحی پلیٹ پر تاریخ تکمیل 7 مارچ 2023 درج ہے جو ٹینڈر کے 2 سال کی معیاد کیبعد مزید 8 ماہ اور 15 دن کی تاخیر سے مکمل ہوا جبکہ محکمہ شاہرات والے پھر بھی وزیراعظم کے سامنے تعمیراتی کمپنی کی تعریفیں کرتے رہے. اب یہ حقیقت تو محکمہ شاہرات کے ذمہ داران ہی بتا سکتے ہیں کہ جب کوئی پراجیکٹ پیپرا رولز کے مطابق دی گئی مدت میں مکمل نہ ہو تو کیا ایکشن لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ جو تاریخ تکمیل بتائی گئی پل در حقیقت اس دن بھی مکمل نہیں ہوا بلکہ اب بھی پل کے نیچے اردگرد دیوار کا کام جاری ہے یعنی پل کی تکمیل کی تاریخ بھی غلط بیان کی گئی جبکہ اس تاریخ کو صرف پل کو ٹریفک کی روانی کیلیے کھولا گیا اور اس کو افتتاح کا نام بھی دیدیا گیا. اس پر ستم ظریفی یہ کہ پل کی تخمینہ لاگت جسے تعمیراتی کمپنی نے 26 کروڑ میں حاصل کیا تھا وہ بڑھ کر 52 کروڑ 83 لاکھ 21 ہزار تک پہنچ گیا جس کا ڈیزائن بھی سابق وزیراعظم کی جانب سے رکھے گئے سنگ بنیاد سے مختلف تھا اور جو موجودہ ڈیزائن سے زیادہ کشادہ تھا اور جسے یہ کہہ کر بدلا گیا کہ اب لاگت کم کردی گئی جبکہ لاگت بھی بڑھ گئی اور پل بھی پچھلے ڈیزائن سے تنگ بنا. اس میں ایک حقیقت یہ بھی ہے 80 کروڑ والے ڈیزائن میں 15 کروڑ صرف حصول اراضی کے لیے مختص تھا جبکہ ڈیزائن تبدیل کرکے اب حصول اراضی کی لاگت 3 کروڑ ہوگئی جس میں کمرشل حصہ کم جس میں موجود ایچ بی ایل بینک والی جگہ بھی شامل تھی کو بچا کر پل کے نیچے آنے والی رہائشی زمین کا حصول تھا اور اس پر بھی ظلم یہ کہ 10 مارچ 2021 کو جو ایوارڈ جاری کیا گیا تھا بعد ازاں محکمہ شاہرات نے اس میں سے بھی چند ادائیگیاں منسوخ کردی اور آج تک ان کی ادائیگیاں نہ کی جاسکیں جبکہ پل کی خاطر اپنی زمینوں کی قربانیاں دینے والے رہائشی متاثرین کو جاری شدہ ایوارڈ کے مطابق بھی رقوم نہ مل سکیں. اس پر ان متاثرین کا ساتھ مزید ظلم یہ کیا گیا کہ پل کے اردگرد پردہ دیوار لگانے کے بجائے جنگلے لگادیے گئے جس سے اردگرد تمام گھروں کا پردہ بھی متاثر ہوگیا.اس سب کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پل سے اصل میں فائدہ کس کو ہوا، عوام کے ٹریفک کا مسئلہ تو جوں کا توں ہی رہے گا کیونکہ ٹریفک پلان نہیں مرتب کیا گیا اور اڈے کو بھی لنک کردیا گیا لیکن ایک فائدہ ہوا ایچ بی ایل بینک کی عمارت کے مالک کو جو اپنی پراپرٹی بچانے میں کامیاب ہوئے، پھر فائدہ ہوا تعمیراتی کمپنی کو جس نے مدت سے تاخیر پر پل بنایا اور اس پر بجائے تحقیقات ہونے کے محکمہ سے تعریفیں بھی بٹور لیں اور 26 کروڑ کا ٹینڈر بھر کر 53 کروڑ میں پل بنایا، کیا ان حقائق کی بنیاد پر احتساب بیورو آزادکشمیر حرکت میں آئے گا؟ کیا پیپرا رولز پر عملدرآمد ہوگا یا پھر محکمہ شاہرات جب چاہے تعمیراتی کمپنیوں کو کروڑوں روپے سے نواز دے جبکہ متاثرین کے چند لاکھ کے معاوضے بھی منسوخ کردے؟
کیا اس سب کے پیچھے بھی کمیشن اور کک بیک عناصر ملوث تھے؟ کیا وزیراعظم آزاد کشمیر کو ان حقائق سے آگاہ کیا گیا اور کیا وہ کوئی ایکشن لیں گے؟ کیا اس پل کے بننے میں تاخیر اور ڈیزائن تبدیل کرانے والے کسی کے پاس جوابدہ ہونگے؟ ان سوالات کیجواب ملنے پر ہی شاہ سلطان پل کی اصل حقیقت سامنے آسکے گی