اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے، اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے پاکستان میں ہر سیاسی جماعت جمہوریت کی بات کرتی ہے خود کو جمہوری نظام کا علمبردار کہتی ہے اور حقیقت میں پاکستان میں محض انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھا اور مانا جاتا ہے وطنِ عزیز میں فوجی ڈکٹیٹر اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات کا سہارا لے چکے ہیں، سویلین حکمران انتخابی جیت کی طاقت پر ہر قسم کے غیر جمہوری اقدامات کرتے رہے ہیں۔ ماضی قریب میں سیاستدان ووٹ پاکستانی عوام سے مانگتے رہے اور اقتدار غیر ملکی قوتوں سے، آج بھی ملکی تاریخ کے کئی اہم فیصلے پاکستانی عوام سے مخفی ہیں اور کب کیا ہو گا اس پر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
قارئین کرام! 8 فروری کو عام انتخابات ہوئے، منتسقم مینیڈیٹ سامنے آیا وفاق سمیت صوبوں میں حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ چند نئے چہروں کے سوا کچھ نہیں بدلہ، سیاسی کشیدگی برقرار ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر سوالات ہیں احتجاج اور گرفتاریاں جاری ہیں رمضان المبارک کی آمد سے سیاسی سرگرمیاں محدود ہونگی لیکن اس ماہ مہنگائی کی نئی لہر سے عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت سرکاری خزانہ سے راشن تقسیم کے ذریعے ذاتی تشہیر میں مصروف ہے تو دوسری طرف اپوزیشن حکومت پر تنقید کرنے پربضدہے۔ رمضان المبارک ایسے ہی گزر جائے گا۔عوام کو ریلیف اور تکلیف دینے پر سیاست ہوتی رہے گی جمہوریت میں انتخابات سے قبل جماعتیں اپنا پروگرام کا اعلان کرتی ہیں ایسا پروگرام جو دورِ حاضر کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ مستقبل کی راہوں کا تعین کرتا ہے حکومتی ٹیم کے نام کم و بیش فائنل ہوتے ہیں کیونکہ جماعتیں ہر شعبہ سے بہتر اور اہل افراد کو آگے لاتی ہیں سیاسی قیادت اپنے پروگرام کی بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کرتی ہیں وطنِ عزیز میں سیاسی جماعتیں خاندان، مقامی بااثر شخصیات اور دلفریب نعروں کے ذریعے انتخابی مہم چلاتی ہیں اپنے حق میں نتائج حاصل کرنے لیے نوٹ، ووٹ اور بہت کچھ زیرِ بحث رہتا ہے ایسے سیاسی کلچر میں عوام اور عوامی رائے کتنی اہم ہو سکتی ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ انتخابات شفاف طریقہ سے کروانے کے لیے نگران حکومتیں قائم کی جاتی ہیں اسکے باوجود انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان کیوں نہ ہو جب نگران سیٹ اپ میں ذمہ دار آئندہ حکومت کے شراکت دار ہونگے بہت بہتر ہے نگران حکومتوں کا سلسلہ ہی ختم کر دیا جائے پاکستان میں نئی وفاقی کابینہ کے ارکان نے حلف اٹھا لیا جس میں اٹھارہ وفاقی وزیر اور ایک وزیر مملکت شامل ہے خواجہ آصف، اسحاق ڈار، حبیب بینک لمیٹڈ کے سی ای او محمد اورنگزیب، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ، مصدق ملک، جام کمال خان، امیر مقام، سردار اویس لغاری، عطااللہ تارڑ، قیصر احمد شیخ، رانا تنویر حسین اور ریاض حسین پیرزادہ، استحکام پاکستان پارٹی کے لیڈر علیم خان، متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی، پاکستان مسلم لیگ ق کے چوہدری سالک حسین، پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین و سابق نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی اور احد چیمہ، جو کہ شہباز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں ان کے معاون تھے سمیت نئی کابینہ میں صرف ایک خاتون شامل ہیں، شزہ فاطمہ خواجہ، جنہوں نے بطور وزیر مملکت حلف اٹھایا ہے۔ یہ بھی شہباز شریف کے پچھلے دور حکومت میں ان کی معاون تھیں۔ سابق نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کا منصب چھوڑنے کے فوراً بعد وفاقی کابینہ میں شمولیت بہت سے حلقوں کے لیے ناصرف حیران کُن ہے بلکہ چند سیاسی حلقوں نے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رہنما اسد قیصر نے چند روز پہلے کہا تھا کہ اگر محسن نقوی حکومت کا حصہ بنیں گے تو مفاہمت نہیں ہو سکتی یہ اس حوالہ سے بھی خوش کن فیصلہ نہیں کیونکہ اسطرح نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی ہوتی ہے لیکن پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے بس مخصوص افراد سے تعلقات اچھے ہونے چاہیے بہرحال یہ تقرری آئینی اور قانونی اعتبار سے درست ہے۔ موجودہ سیاسی بندوبست مقتدرہ کا ہے یا کسی اور کا، اس کے ساتھ سب سے زیادہ زیر بحث یہ سوال ہے کہ حکومت کتنی دیر چل سکتی ہے۔۔؟
تجزیوں، تبصروں، پیش گوئیوں، الزامات، خدشات اور صفائیوں کا ایک انبار ہے۔ جس میں کچھ حقائق بھی یقینا شامل ہیں لیکن جھوٹ، مکاری اور فریب کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن موجودہ سیاست پر غور کریں تو ادھوری سچائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ سلگتے تضادات کے ادراک اور انہیں حل کرنے کے لیے کوئی بھی سیاسی جماعت ٹھوس لائحہ عمل پیش نہیں کرتی۔ موجودہ ملکی حالات کو ماضی کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تمام تر سیاسی انتشار، انتخابات کے انعقاد اور میڈیا پر جاری تماشوں کے باوجود عام آدمی مروجہ سیاست سے شدید بیزار ہے۔ نوجوان طبقہ میں خاص طور پر یہ سوچ بختہ ہو چکی ہے کہ ووٹ سے تمام فیصلے نہیں ہوتے بانی پی ٹی آئی جو اس نطام کے مکمل فیض یافتہ ہیں، اقتدار سے وضع کردہ آئینی طریقہ سے رخصت کیے جانے پر نوجوان طبقہ کو متاثر کر چکے ہیں پی ٹی آئی کی قیادت نے خطرناک رُجحان متعارف کروایا کہ سب کچھ بانی پی ٹی آئی کی مرضی و منشا کے مطابق ہو جائے۔ ایسا ممکن نہیں اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اوورنائٹ سب کچھ بدلا نہیں جا سکتا نظام بتدریج ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ نظام کے اندر رہ کر ہی بہتری لائی جا سکتی ہے صرف نیت اور کوشش شرط ہے۔ معاشی اور اخلاقی بحران میں مبتلا پاکستان میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے سیاسی عدم استحکام پھیلایا گیا ہے۔ ہم اس نظام کے طرفدار نہیں لیکن تبدیلی بھی تو کسی ضابطہ قاعدہ قانون سے ہی آئے تو قابل قبول ہو سکتی ہے۔ نظام اس قدر عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کہ نئی حکومت کے لمبے عرصے تک چلنے کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ چلتی بھی ہے تو خود حکومتی اتحادیوں کے درمیان مسلسل الزام تراشی، چھینا جھپٹی، تذبذب اور انتشار کا شکار ہی رہے گی اور معاشی حالات میں ابتری اس کے داخلی بحران کو شدید تر ہی کرے گی۔ نظام کے بحران کی قیمت عام آدمی کو ہی ادا کرنی ہے باخبر اور باشعور طبقہ جانتا ہے کہ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے تو پھر ایوانوں اور میدانوں میں شور کیوں برپا کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان عالمی اداروں اور بین الاقوامی طاقتوں کا محتاج ہے اور موجودہ نظام میں جمہوری روح نہیں تو ایسے میں شور شرابہ سے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ حقائق کا ادراک کرتے ہوئے باہم مل کر نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے سب سے پہلے سوچ بدلیں اور پھر نظام بدلیں ایسا نہیں کرتے تو ایسی ہی حکومتیں قائم ہوتی رہیں گی جس میں نت نئے چہرے شامل ہونگے حکومت ہو گی اپوزیشن ہو گی لیکن عوام کی شمولیت نہیں ہو گی انتخانات پر شکوک و شہبات اپنی جگہ، کابینہ پر اعتراضات درست، احتجاج آئینی حق ہے اس حق کو بھی استعمال کریں لیکن درست سمت میں توانائی خرچ کریں اس شعر میں ساری سیاست پنہاں ی ہے اس کو سمجھیں اور اسکے مطابق طرز عمل اختیار کریں۔
کیا زندگی ہے مُحسن کٹھ پُتلیوں کی مانِند
دھاگے پرائے ہاتھ میں بس ناچتے رہو
0 35 5 minutes read