کالم

سچ بولنا منع ہے

سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیاہے 4 صفحات پر مشتمل حکمنامہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں پر حملوں سے متعلق ایف آئی اے اور پولیس کی رپورٹس تسلی بخش نہیں ہے، ایف آئی اے اور پولیس دوبارہ تفصیلی رپورٹس جمع کرائیں تحریری حکمنامے کے مطابق سپریم کورٹ یا رجسٹرار نے کسی صحافی کے خلاف کارروائی کا نہیں کہا، ایف آئی اے کے صحافیوں کو جاری نوٹسز میں عدلیہ کا نام غلط استعمال کیا گیا،سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے نوٹسز سے غلط پیغام گیا کہ سپریم کورٹ صحافیوں کیخلاف کارروائی کرا رہی ہے،سپریم کورٹ کی اس تازہ ترین تفصیلات کے بعد ہم کچھ آگے بڑھتے ہیں پاکستان میں صحافت کاشعبہ خطرناک ترین شعبہ بن چکاہے گزشتہ چند برسوں میں ہمارے سامنے ہمارے بہت سے صحافی اپنی جان کی بازی ہارچکے ہیں جس میں زیادہ تر کو انصاف نہیں ملا جو صحافی ہم سے بچھڑ گئے ان میں ارشد شریف، سلیم شہزاد، عبد الحق بلوچ، رزاق گل،حاجی زئی،ملک ممتاز، محمود آفریدی، مرزا اقبال، سیف الرحمان، اسلم درانی، ایوب خٹک،عمران شیخ،مکرم خان، عارف خان یا مصری خان، ولی خان بابر ہو یا عزیز میمن، موسی خیل ہوں یا چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان ہوں یا عامر نواب، راجہ اسد حمید، فضل وہاب ہوں یا صلاح الدین، غلام رسول ہوں یا عبد الرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی ہوں یا شاہد سومرو یا لالہ حمید بلوچ ہوں یہ تمام صحافی اسی شعبے سے وابسطہ تھے یہ تمام نام آپکو میڈیا ریکارڈ سے مل سکتے ہیں مگر نہیں مل سکتاتو وہ ہے انصاف۔اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے جو ایک سے زائد بارحکومتیں بناچکی ہیں انہوں نے ہمیشہ میڈیا کو کنٹرول کرکے ہی سیاسی حالات کواپنے لیے سازگاربنایا ہے اس کی بڑی وجہ یا تو سچ کودبادیا گیا یاپھرخریدلیاگیا۔ آزادی صحافت پاکستان میں تو ابھی تک ایک خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں پیشہ وارانہ صحافت کوسب سے زیادہ جدوجہد مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے خلاف کرنا پڑ رہی ہے۔ پرویز مشرف جوکہ آمر تھے انہوں نے اپنے دور حکومت میں پرائیوٹ میڈیا کو کام کرنیکی اجازت دی تاہم کچھ عرصے بعد وہ اس آزادی صحافت کو لے کر پریشان ہوگئے اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی۔انہوں نے صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کی ان کے شو بند کروادئے 2021ء میں سابق وفاقی وزیر شریں مزاری نے ماہرین قانون اور دیگر صحافی تنظیموں کی مشاورت سے جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروٹیکشن بل پاس کروایا، مئی 2021ء میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اسی طرح کے ایک بل کو پیش کیا گیا اور 4 اگست 2021ء میں اسے قانونی شکل دے دی گئی جبکہ اس قومی بل کو دسمبر 2021ء میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کرکے باقاعدہ قانون کا حصہ بنایا۔ دیکھاجائے تو قومی اور صوبائی دونوں قوانین کی رو سے صحافی اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر کرنے کا پابند نہیں۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ آرٹیکل 19 کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ، ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہوناتویہ چاہیے جہاں ہر پاکستانی کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے وہیں کسی بھی صحافی کی زندگی اس کے کام کی وجہ سے متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ کوئی دوسرا قانون صحافیوں کو ان کے کام سے نہیں روک سکتا مگر شاید یہاِں قانون صرف نام تک محدود ہے اور عملی اقدامات میں حکومت وقت کے دباو سے چلتاہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت پر سوالیہ نشان اب ایک بدنمانداغ کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں آمریت ہو یا جمہوریت، آزادی صحافت ہر دور میں کوڑے ہی کھاتی رہی ہے،واضح رہے گذشتہ 3 دہائیوں کے دوران 70 سے زائد صحافی دہشت گرد حملوں کی زد میں آئے جبکہ 170 کے قریب فرض کی ادائیگی کے دوران مختلف واقعات میں جان سے چلے گئییہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان صحافت کیلئے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں پہلے نمبروں کے اردگرد دکھائی دیتاہے۔ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا جس طرح گلا دبایا گیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی کیونکہ پاکستان میں خطرہ اب صرف کارکن صحافیوں کوہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد بلاگرز اور یو ٹیوبرز کو بھی ہے جس کی ایک بڑی مثال عمران ریاض خان ہے بلکہ اب تو بعض ایسے لوگوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے جو ٹوئٹر پر متحرک نظر آتے ہیں اور ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کے خلاف غداری اور توہین مذہب کے قانون کے تحت بھی مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں آزادی اظہار رائے ہر آنے والے دن کے ساتھ پابند ہوتی جا رہی ہے۔ عمران ریاض جو کہ کئی ماہ بعد گھر پہنچے تھے ایک بارپھرسے گرفتار ہوئے مگرمعززعدلیہ کی وجہ سے وہ اب گھر پر ہیں۔ اس سے پہلے عمران ریاض خان کو 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔عمران ریاض خان سیالکوٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے مسقط جارہے تھے کہ ایف آئی اے حکام نے گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کردیاتھا۔ عمران ریاض کے والد کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ یہی سچ ہے، یہ حکومت پاکستان ہے، یہاں لوگ غائب ہوجاتے ہیں، رحم کریں، اس (عمران ریاض) کا قصور سچ بولنا ہے، مار دو، ایک ہی دفعہ مار دو ہمیں صبر آجائے گا۔ آج سے تین سال پہلے ایک خبر یہ تھی کہ اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔آج یہ صحافی بھی ان دنوں پابندسلاسل ہے۔ واضح رہے کہ 26 اور 27 فروری کی رات ایف آئی اے نے اسد طور کو انتخابات سے قبل تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ‘بلے’ کے نشان سے محروم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اعلی عدلیہ کے خلاف ‘بد نیتی پر مبنی مہم’ کے الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹس دیے جانے اور ہراساں کیے جانے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے کہا کہ پورا ملک آپ کی کارکردگی دیکھ رہا ہے، آئی جی اسلام آباد کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ سہولت کاری کررہے ہیں، کسی صحافی کو گولی ماردو، کسی پرتشدد کرو، کسی کو اٹھالو، سیف سٹی کیمرے خراب ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں دور چاہے کسی خالص آمرکا ہویا جمہوریت کے لبادے میں لپٹے آمر کا صحافیوں کے لیے مسلسل تنگ ہوتی زمین نے یہ ثابت کردیاہے کہ اگرآپ نے اس ملک میں رہناہے تویہ جان کرجیناہوگاکہ کہ یہاں سچ بولنا سختی سے منع ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button