کالم

سیاستدانوں کے وعدے ، نئی حکومت اور عوامی مسائل

اصل سیاست وہ ہے جو کہ آپ صحیح معنوں میں بے لوث عوام کی خدمت کریں ۔ اس میں بندے مطلب سیاستدان کی کوئی لالچ وغیرہ شامل نہ ہو۔ اگر دیکھا جائے تو باہر ملکوں ہمیں صحیح معنوں میں پھر وہاں سیاست نظر آتی ہے ۔اگر اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں بات کریں تو یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی سیاست کو جو کہ سوشل ورک یا عبادت کے طور پر باہر دنیا میں کیا جاتا ہے پاکستان میں اس کو کاروبار کی حیثیت سے کیا جاتا ہے جتنے بھی ہمارے ہاں پاکستان میں سیاستدان آتے ہیں یا ابھی تک آئے ہیں ان سب کا ماضی پاکستانی عوام کے سامنے ہے کہ وہ سیاست کو صرف کاروبار کی شکل میں استعمال کرتے ہیں پیسوں سے ووٹ خریدتے ہیں اور کرسی پر آتے ہیں اور اتنی لوٹ مار کرتے ہیں کہ ہمارے آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض کر دیتے ہیں .آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تھے اور دوسری بات اس میں آزاد امیدوار وں کی تعداد زیادہ ہیں ۔ اگر آزاد امیدوار یعنی جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا ان کی تعداد زیادہ ہے کچھ لوگ کہ رہے ہیں اس دفعہ بھی دھاندلی ہوئی ہے ، لیکن کچھ لوگ یہی کہتے ہیں ، کہ جو آزاد امیدوار کھڑے تھے ان کو ووٹ عمران خان کی وجہ سے ملا ہے ۔ کیونکہ عمران خان کے ورکرز یہی نعرہ لگاتے کہ ظلم کا بدلہ ووٹ سے لیکن اس کو ایک طرف رکھتے ہیں ۔اگر عوامی مسائل کی بات کریں تو تعلیم، صحت، روزگار ، انصاف کی عدم فراہمی، بجلی، پانی اور گیس یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے عوام کافی پریشان ہے۔ عوام نے آٹھ فروری کو اس امید کے ساتھ ان سیاستدانوں کو ووٹ دیا تھا کہ بعد میں یہ بندہ یہ یہ مسائل حل کریں گا۔ اگر مسائل کی حل کی بات کریں تو ان مسائل کو حل کرنا منتخب سیاستدانوں کا کام ہیں وہ سیاستدان سیاسی عمل کے ذریعے ان مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں ۔جو وعدے اور دعوے سیاستدانوں نے عوام سے کیے تھے کیا اگلے پانچ سال میں وہ ہورے کریں نگے ؟ کیا ملک پاکستان سے غربت ختم ہوگی ؟ کیا نوجوانوں کو نوکری اور مفت تعلیم کے مواقع ملے گے ؟ کیا خواتین کی عزتیں محفوظ ہوگی ؟ کیا بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی ؟ کیا ادویات کی قیمتوں میں کمی آئے گی ؟ہمارے ہاں جہیز کا جو مسئلہ ہے اس کی وجہ سے بہت سی خواتین اپنے گھروں میں انکی عمریں گزر جاتی ہیں ۔ جہیز ادا نہ ہونے سے بہت سے بہنوں اور بیٹیوں کی عمر ضائع ہو جاتی ہیں ۔ بیروزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ تو بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کچھ ایسی منصوبہ بندی کی جائیں ۔ کہ نوجوانوں کو کم از کم اپنے ہی دیس کے اندر ایسا روزگار مل جائے جس سے اس کو دو وقت کی روٹی فراہم ہو سکیں ۔ ہماری جو بنیادی ضروریات ہیں اس کے مسائل آج کل تھوڑا زیادہ ہے اس کے علاہ ” انرجی کرائسسز ” چل رہے ہیں ۔ یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں ۔ کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس کے علاہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں اگر ہم دیکھ لیں تو تفریح کے مواقع ہمارے اس وقت بہت مخدوش ہوگئے ہیں ۔ اسی طرح سے جو گرانڈ تھے وہ بڑے بڑے پلازوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔تو نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان بنیادی مسائل کے خلاف آواز اٹھائے ۔ اور جلد از جلد اس کو ختم کریں ۔
چینلوں ، اخبارات ، ٹیلی ویژن پر اور باقی جگہوں پر ہر طرف آج کل جمہوریت بک رہی ہے ۔ ہر کوئی جمہوریت کے حوالے سے باتیں کررہا ہیں ۔ یہ کیسی جمہوریت کہ جس میں عوام کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں ، کیسی جمہوریت کہ جس میں امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے کیسی جمہوریت کہ جہاں پر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو کوئی اپنی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا ، کیسی جمہوریت کہ جس میں ادارے صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے ، کیسی جمہوریت کہ غریب اگر چوری کرتا ہے تو انکی سزا کو ختم کیا جاتا ہے یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عدالتیں دکانیں بنی ہوئی ہیں ، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں مظلوم انصاف مہنگے داموں خرید رہا ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر ظلم کے بنیادی حقوق کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہو ، پختونخوا اور بلوچستان سب کے سامنے ہیں اور آج کل ہماری میڈیا پر صرف انتخابات کی باتیں ہورہی ہیں کس کو کونسی وزارت مل گئی یا ملنے والی ہے ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر کوئی اپنے حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتا، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک صحافی سچ لکھ اور بول نہیں سکتا اور اگر لکھے بھی تو ایڈیٹرز صاحبان اور میڈیا مالکان اشتہارات اور بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے ان صحافیوں کی لکھائی یا باتوں کو مسترد کرتے ہیں وجہ ہے کہ پاکستان میں جو سب سے بڑا ہوتا ہے یعنی بڑے عہدے پر براجمان ہوتا ہے وہ بڑے بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے یہ بوٹ ان کے لیے آئینہ ہوتی ہے ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے ،یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ظلم برداشت کررہے ہیں میں یہ ایسی جمہوریت کا اور کیسے تذکرہ کروں مجھے نہیں چاہیے ایسی جمہوریت پاکستان میں آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تھے لیکن جس طرح میں نے پہلے کالم میں بتایا تھا کہ پاکستان کی یہ ایک تاریخ ہے یہاں پر ہر الیکشن کے بعد یہ سننے کو ملتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے یا ہوئی تھی سنہ اٹھارہ کے انتخابات کے بعد تو ہمارے کان اس بات کی وجہ سے پک چکے تھے کہ یہ الیکٹڈ وزیراعظم نہیں بلکہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں تھا کہ اسی وقت عوام کو یہ بتاتے کہ اس نے اس کو سلیکٹ کیا ہے وجہ یہ ہے کہ یہاں ہر لیکن مجھے نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں ہر سیاست دان بوٹ میں اپنا چہرہ کیوں دیکھتا ہے اور بوٹ سے اتنا ڈرتا کیوں ہے آخر اس بوٹ میں ہے کیا اب تو مولانا نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے آپ یہ کیوں نہیں بتاتے ملک کو تو ویسے بھی بوٹ اور سیاستدانوں نے اس جگہ پر لا کر کھڑا کر دیا کہ ترقی کرنے کی تمنا جو تھوڑی بہت غریب عوام کے دلوں میں تھیں وہ بھی ختم ہوئی ۔ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن زلیل ہوتا ہے اور ان صاحبان کے بچے باہر ممالک میں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اگر سیاست دانوں کی بات کریں تو وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ ان کی کرپشن عوام کو نظر آتی ہے اور چونکہ بوٹ زور آور ہے تو ان کا کسی کو پتا نہیں چلتا اس کے علاہ اگر گزرے ہوئے الیکشن کی بات کریں تو ان میں آزاد کے علاہ ایسے بندے کھڑے تھے کہ بیچارہ نظر گل نظر خود حیران تھا مطلب پارٹی کی بنیاد جس شخص نے رکھی تھی ان کو دنیا سے گئے ہوئے کء برس ہوئے، لیکن ان کے پوتے ان کا نام استعمال کرتے تھے اور جلسوں میں انہی کی نام پر ووٹ مانگتے تھے اس میں سارا قصور ہمارے پاکستانی عوام کا بھی ہے کہ جس کو بات کرنے کا طریقہ تک نہیں آتا انکو ووٹ دیا اور آج کل ان کو بڑی بڑی وزارتیں مل رہی ہیں ۔ اگر جاگیرداری نظام کی بات کریں تو پاکستانی سیاست میں جاگیرداری نظام بہت عام ہے جس طرح جاگیرداری نظام میں والد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اس کا جانشین ہوتا ہے اسی طرح پاکستانی سیاست میں بھی ہے دادا کے بعد بیٹا بیٹے کے بعد پوتا اور اس طرح سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان حالات میں ملک و قوم ترقی نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے پاکستان میں شروع سے یہی نظام چلتا آرہا ہے ۔ لیکن ان سب کے باوجود نظر گل نظر جوکہ ایک سادہ آدمی ہے ، غربت کی وجہ سے اخبار بھی حجام کی دکان میں پڑھتا ہے اتنا غریب ہے باقی آپ خود اندازہ لگا لے کسی شرارتی نے اس کو کہا ہے کہ پختون خواہ میں شہد کی نہریں بہیں گی جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہے ،
ہر وقت سوچتا رہتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button