ایک بات ہمیں تواتر سے سننے کو ملتی ہے کہ پہلا دور آج کل کے زمانے سے بدرجہا بہتر تھا۔ پہلے دور کے پرائمری پاس آج کے میٹرک پاس سے زیادہ قابل تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ آئیے! جائزہ لیتے ہیں کہ اس بات میں کہاں تک صداقت ہے۔ستر کی دہائی بھی کیا دَور تھا۔ سادہ، سچا اور کھرا زمانہ تھا۔ تب پروفیشنل ازم کا پتا ہی نہ تھا۔ لوگوں کی اکثریت”نیم ہر فن مولا” ہوا کرتی تھی۔ ریڈیو مکینک ریڈیو کے علاوہ ٹارچ اور سائیکل بھی ٹھیک کر لیا کرتے تھے۔ بلکہ سائیکلوں کو پنکچر بھی لگا دیتے تھے۔ کریانے والا پھل اور سبزی کے علاوہ پنسار کی چیزیں بھی فروخت کیا کرتا تھا۔ ٹی وی عام ہوا تو ریڈیو مکینک ہی ایک زینہ ترقی کر کے ٹی وی مکینک بن گئے۔ لیکن ریڈیو، استری، ٹارچ اور اسٹیپلائزر کی مرمت کا کام بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ یقین مانیں وہ مکینک تمام اشیا ء کو یکساں مہارت سے مرمت کر لیا کرتے تھے اور گاہک بھی سو فیصد مطمئن تھے۔
یہی سلسلہ تعلیمی اداروں میں بھی تھا۔ پرائمری اساتذہ کی تعلیمی قابلیت مڈل جے وی ہوا کرتی تھی۔دیہات میں واقع اکثر پرائمری سکولوں میں صرف ایک ہی معلم ہوا کرتے تھے جو کچی جماعت سے لے کر پانچویں تک تمام بچوں کو تمام مضامین پڑھایا کرتے تھے۔ وہ مڈل پاس اساتذہ اتنے قابل ہوتے تھے کہ آٹھوں مضامین پر ان کی مکمل گرفت ہوتی تھی۔ صبح سے لے کر چھٹی ہونے تک اساتذہ تمام جماعتوں کو مسلسل مصروف رکھتے تھے۔ ایک استاد، چھ چھ کلاسز، چھ گھنٹے تک مسلسل پڑھائی، درمیان میں صرف چند منٹ تفریح کا وقفہ مگر استاد نے کبھی تھکاوٹ کی شکایت نہ کی تھی۔ نہ ہی استاد کبھی بیمار ہوتے تھے۔ بہت ہی کم دیکھنے میں آتا کہ استاد نے کبھی سکول سے چھٹی کی ہو۔ بچے بھی روزانہ سکول جاتے تھے۔ اگر کسی طالب علم کا دل چھٹی کرنے کو چاہتا اور وہ سکول نہ جاتا تو چار پانچ طلبہ پر مشتمل ایک ٹیم غیر حاضر طالب علم کے گھر پہنچ جاتی، اسے استاد کا پیغام دیا جاتا کہ بستہ پکڑ کر سکول آ جائے۔ اگر وہ لیت و لعل سے کام لیتا تو ایک طالب علم گھر سے اس کا بستہ پکڑتا۔ باقی اس طالب علم کو بازوئوں اور ٹانگوں سے پکڑتے اور ڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے سکول لے جاتے۔اس تمام عمل کے دوران بھگوڑے طالب علم کی والدہ سکول سے آنے والے طلبہ کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتی رہتی تھی۔ ان ”سپاہی طالب علموں” کے پاس استاد کی طرف سے بھگوڑے طالب علم کو دو چار تھپڑ مارنے کا اختیار بھی ہوتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ سپاہیوں کے فرائض دینے والے وہ طلبہ کبھی ناکام نہیں لوٹے تھے۔ استاد کی بڑی عزت تھی۔ اگر کوئی بچہ والدین کی نافرمانی کرتا تو اسے باقاعدہ دھمکی دی جاتی تھی کہ صبح تیرے استاد کو تیری شکایت لگائی جائے گی۔ اس دھمکی کا جادوئی اثر ہوتا تھا اور وہ بچہ بالکل سیدھا ہو جاتا تھا۔تب سکول میں معائنہ کے لیے ایک ہی افسر آیا کرتا تھا جسے اے ڈی آئی (اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر) کہا جاتا تھا۔ عرفِ عام میں اس افسر کو”صاحب” کہا جاتا تھا۔ وہ کبھی با اطلاع اور کبھی بلا اطلاع سکول میں معائنہ کے لیے آیا کرتا تھا۔ سالانہ معائنہ بااطلاع ہوا کرتا تھا۔ صاحب سارا دن سکول میں گزارتا تھا۔ ایک ایک طالب علم کی ذاتی صفائی،اس کے ناخنوں کی تراش خراش، کلاس روم کی صفائی، کتابوں اور کاپیوں کی حالت، طالب علموں کی خوش خطی سے لے کر تمام مضامین کی تعلیمی حالت چیک کی جاتی تھی۔ فنونِ عملی کے طور پر بچے اپنے گھروں سے مٹی سے مختلف سبزیوں، پھلوں اور دوسری چیزوں کے ماڈل بنا کر اور ان پر رنگ کر کے سکول لے جاتے تھے۔ معائنہ والے دن ان ماڈلز کا معائنہ بھی کیا جاتا تھا اور اچھی کارکردگی والے طلبا ء کو شاباش دی جاتی تھی۔ صاحب سے شاباش لینے والا طالب علم ہفتوں تک پھولے نہ سماتا تھا۔ شاباش کا لفظ اس دَور میں بہت بڑا انعام ہوتا تھا۔ اس سے آگے کا طالب علموں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ معائنہ چھٹی تک چلتا تھا۔ اس کے بعد صاحب لاگ بُک (سکول کا معائنہ رجسٹر) منگواتا اور سکول کی حالت، استاد اور طلبہ کی حاضری کی تعداد کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی نصابی و غیر نصابی کارکردگی کی تفصیل درج کرتا۔ اچھے کاموں کی شاباش اور کمی و کوتاہی کی نشاندہی کرنے کے ساتھ بہتری کی تجاویز بھی درج کرتا تھا۔ سکول میں یہ ایک یادگار دن ہوا کرتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ سپیشلا?زیشن کا دور آنے لگا۔ ریڈیو، ٹی وی، ٹارچ اور استری کی مرمت کے الگ الگ مکینک معرضِ وجود میں آ گئے۔ پہلے حکیم ہر بیماری کی تشخیص محض نبض دیکھ کر کیا کرتے تھے اور اس بیماری کا علاج بھی کر لیتے تھے۔ مریض تندرست بھی ہو جایا کرتے تھے۔ اب ہر مرض کے سپیشلسٹ ڈاکٹر بن گئے، تھوڑا مزید آگے بڑھ کر دائیں کان کا الگ سپیشلسٹ اور بائیں کان کا الگ سپیشلسٹ ڈاکٹر آ گیا۔ پہلے حکیم نبض دیکھ کر مرض بتا دیا کرتے تھے۔ اب مرض کی تشخیص کے لیے سینکڑوں قسم کی مشینیں آ گئی ہیں۔ مگر ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کروانے اور مہنگی ادویات استعمال کرنے کے باوجود مریض تندرست نہیں ہوتے۔
یہی حال محکمہ تعلیم میں بھی ہو گیا۔ پہلے استاد آل رائونڈر تھے۔ بلکہ ”ماسٹر آف آل ٹریڈز تھے”۔ تمام مضامین پر انہیں یکساں مہارت حاصل تھی۔ وہ محنتی تھے۔ ان کا مطالعہ بھی وسیع ہوتا تھا۔ ایک استاد چھ کلاسز کے تمام مضامین پڑھا کر سب مضامین میں بہترین نتائج دیتا تھا۔ پھر ”ماہرین تعلیم” نے سپیشلسٹ اساتذہ کی ضرورت پر زور دیا۔ اب کچی جماعت کو پڑھانے کے لیے بھی استاد کی قابلیت ایم اے پاس ہے۔ پرائمری کلاسز کوانگریزی، اردو، ریاضی اور سائنس کے مضامین پڑھانے کے لیے ان مضامین کے ماہر اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے۔ مڈل اور ہائی کلاسز کے لیے ہر مضمون کے ماہر اساتذہ کو بھرتی کیا گیا ہے۔ پہلے ایک استاد چھ کلاسز کو دن بھر تمام مضامین پڑھاتا تھا، اب استاد دن میں پانچ یا چھ پریڈز صرف اس مضمون کے پڑھاتا ہے جس مضمون کا وہ ماہر ہے۔ مگر کوشش کے باوجود استاد تسلی بخش نتائج نہیں دے پا رہا۔ گزشتہ سال نہم کلاس کے بورڈ کے امتحان میں ساٹھ فیصد سے زائد طلبہ فیل ہو گئے۔اور امسال چند دن بعد آنے والے رزلٹ سے بھی یہی توقع ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اتنی سہولیات اور پروفیشنل ازم کے اطلاق کے باوجود خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔
اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ وجہ ہے ہر آنے والی حکومت کی تعلیم سے عدم توجہی۔ تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ایک عجیب رواج چلا ہوا ہے کہ سکول کی عمارت، فرنیچر، رنگ و روغن اور سکول میں ہریالی کی طرف بھرپور توجہ دی گئی ہے۔ مگر تعلیمی عمل کے مرکز یعنی طالب علم کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ استاد کو کبھی ڈینگی اور کبھی کرونا کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت فوٹو گرافر، کمپیوٹر آپریٹر،مالی، چپڑاسی، خاکروب، کلرک، اور چوکیدار تو ہے مگر اسے استاد نہیں بننے دیا جارہا۔ اسے اتنا وقت ہی نہیں دیا جاتا کہ وہ کلاس میں یکسوئی کے ساتھ طلبہ کو پڑھا سکے۔ اوپر ستّر اور اسّی کی دہائی کے اے ڈی آئی کے سکول معائنے کا ذکر آپ پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح پورا دن لگا کر وہ ایک سکول کا معائنہ کیا کرتا تھا۔ اب تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کا ضلعی سربراہ معائنہ کے لیے نکلتا ہے۔ دو تین گھنٹوں میں پانچ سکول وزٹ کرتا ہے۔ وزٹ کے دوران سکول کی صفائی، گھاس کی کٹائی، چار دیواری اور کمروں کی سفیدی، واش رومز کی صفائی، پینے کے پانی کا انتظام، محکمانہ ہدایات پر مشتمل فریم شدہ پینا فلیکسز کی تنصیب، روشنی کا مناسب انتظام، کھڑکیوں کے شیشے اور جالیوں کی حالت کو چیک کرتا ہے اور دفتر پہنچ کر وزٹ رپورٹ تیار کر کے حکامِ بالا کو بھیج دیتا ہے۔ یعنی صاحب بہادر صرف سہولیات کی دستیابی اور عدم دستیابی کو چیک کرتا ہے اور بس۔ جن طالب علموں کے لیے یہ تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ان کی طرف کبھی کسی افسر نے دیکھا تک نہیں۔ان کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہی کبھی محسوس نہیں کی گئی، اس لیے کہ محکمے کی طرف سے انہیں اس کی ہدایت ہی نہیں دی جاتی۔ (کچھ دردِ دل رکھنے والے ڈی ای اوز اس سے مستثنٰی ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے اور درحقیقت وہی محکمہ تعلیم کے ماتھے کا جھومر ہیں). اس سے آپ حکومت کی تعلیم کے معاملے میں سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت نہم کا بورڈ کا رزلٹ چالیس فیصد سے بھی کم آنے کے باوجود بھونچال آنا تو درکنار ہلکی سی جنبش بھی نہیں ہوتی۔ ناقص تعلیمی پالیسیوں سے ہمارے اکابرین اپنی آنے والی نسل کو تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں مگر افسوس کہ کسی کو اس زیاں کا احساس تک نہیں ہے۔
0 47 6 minutes read