کالم

کشمیر اور مسئلہ کشمیر متحدہ عرب امارات کے سپرد؟

پاکستان اپنا روایتی عالمی مدار بدلتے بدلتے دوبار ہ پرانے مدار میں لوٹ آیا ہے۔ گویا کہ دائرے کا پچھتر سالہ سفر ہی پاکستان مقدر ہے۔ اس پرانے سفر میں کئی موڑ ایسے تھے جن سے پاکستان بچنے کی کوششیں کرتا رہا مگر اب یوں لگتا ہے کہ انہونی ہو کر ہی رہے گی۔ پرانے میں مدار میں پاکستان کے لیے کشمیر سے فلسطین تک کچھ فیصلے معین اور کچھ راستے متعین تھے اور اب ظاہر ہے ان راہوں سے فرار ہوکر کہاں جانا ہے؟۔ کچھ عرصے سے پاکستان کی حکومت کشمیر پر غیر فعال ہوتی جا رہی ہے اور ایک خالص کاروباری خلیجی ریاست مسئلہ کشمیر پر اپنے انداز اور زاویے سے سرگرم ہو رہی ہے۔ حکومت پاکستان کی غیر فعالیت یہ بتا رہی ہے کہ وہ کشمیر پر اپنا مختار نامہ کہیں اور منتقل کرنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ چند دن قبل متحدہ عرب امارات میں پینتالیس روز سے جاری چنار اسپورٹس فیسٹول اپنے اختتام کو پہنچا۔ کھیلوں کے اس میلے میں سری نگر اور مظفرآباد کے خلیجی ملکوں میں مقیم خاندانوں نے بڑے پیمانے پر شرکت کی۔ یہ طویل عرصے کے بعد کنٹرول لائن کے دونوں جانب بسنے والوں کی ایک مشترکہ اور بڑی سرگرمی تھی۔ یہ سیج کشمیر کی خاطر ہی سجائی گئی اور چنار اسپورٹس فیسٹول کا نام ہی کشمیر کے ساتھ اس کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ چنار کشمیر کا قومی نشان اور درخت ہی نہیں اس کی پہچان بھی ہے۔ اس سرگرمی میں آزاد کشمیر سے کئی سیاست دانوں نے بھی شرکت کی جن میں سابق وزرائے اعظم راجا فاروق حیدر اور سردار عتیق احمد خان نمایاں تھے۔ خلیجی ملکوں میں اس طرح کی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیاں حکومتوں کی رضامندی اور اشارے کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔ کھیلوں کے میلے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی حکومتی نمائندے نے بھی بالواسطہ طور پر تسلیم کیا کہ ان کا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات چاہتا ہے اور اس کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس طرح کشمیر کے دونوں حصوں کے افراد نے پینتالیس دن تک مشترکہ سرگرمی کی اور اس کے لیے سری نگر جموں مظفر آباد یا میرپور کے بجائے زمین متحدہ عرب امارات کی استعمال ہوئی۔ یہ تقریبا وہی انداز ہے جو پاکستان کے حالات کی خرابی کی وجہ سے کھیلوں کے عالمی مقابلوں کو متحدہ عرب امارات منتقل کیا جاتا ہے۔ اس سرگرمی سے آزادکشمیر سے معروف سیاسی لوگوں نے شرکت کی مگر سری نگر سے ایسے کسی نام کی شرکت بظاہر نہیں ہوئی مگر اس دوران کشمیر کے سابق وزرائے اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ عمرہ کی ادائیگی کی خاطر سعودی عرب میں دیکھے گئے اور جب متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر چنار اسپورٹس فیسٹول جاری تھا تو نریندر مودی اسی ملک کے ایک اور شہر میں موجود تھے اور خلیج کے پہلے پرشکوہ مندر کا افتتاح کر رہے تھے۔ یہاں سے واپسی کے بعد مودی کشمیر بھی گئے اور ایک جلسہ عام میں انہوں نے کشمیر کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کا ذکر بھی معنی خیز انداز میں کیا۔جی ٹونٹی کانفرنس کے ایک سیشن کے سری نگر میں انعقاد میں متحدہ عرب امارات کی مدد ایک حقیقت ہے۔ یہی نہیں پانچ اگست 2019 کے فیصلے سے پہلے اور بعد بھی متحدہ عرب امارات کا کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان کو کسی مضبوط سفارتی یا سیاسی قدم سے روکنے کے لیے عرب امارات کے نمائندوں نے خصوصی طور پر پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان کو صبر وتحمل کی تلقین کی گئی تھی۔ اسی دوران پاکستان کے حساس ادارے کے سربراہ جنرل فیض حمید اور نریندر مودی کے مشیر قومی سلامتی اجیت دووال کے درمیان مذاکرات بھی متحدہ عرب امارات میں چلتے رہے جوکسی بامعنی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تھے۔ اسی طرح سری نگر سے دوبئی کے لیے اچانک شروع ہونے والی پروازں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کا انتخاب بھی آنے والے موسموں کا پتا دے رہا تھا۔ بھارت کی ائرلائن گو فرسٹ کی یہ پروازیں کئی روز تک خاموشی سے جاری رہی تھیں اور بعد میں انہیں بند کر دیا گیا مگر یہ ایک لمبے سفر کی شروعات اور ریہرسل ہی تھی۔متحدہ عرب امارات پاکستان کی معاشی مشکل میں جو کردار ادا کررہا ہے اس میں پاکستان کی طرف سے خلیجی ملکوں کی رائے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی اسپورٹس ڈپلومیسی بھی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ بھارت سردست پاکستان کے ساتھ نظریں اور ہاتھ ملانے پر آمادہ نہیں۔ اس لیے متحدہ عرب امارات کو آگے بڑھ کر کشمیر پر حالات کو نارمل کرنے کے لیے آگے آنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی بحران میں بھارت کشمیر کے حوالے سے ہر قسم کی اسپیس متحدہ عرب امارات کو دے رہا ہے۔ مشرف فارمولے کے تحت کشمیر میں سری نگر یا مظفر آباد یا دہلی اور اسلام آباد کے مشترکہ اداروں کے قیام اور سیاحتی راہداریوں اور منقسم کشمیریوں کے باہمی ملاپ کا کام بھی اب پاکستان کی جانب سے یو اے ای نے ہی سنبھال لیا ہے
۔ گویا کہ فریق ثانی کے طور پر فرنٹ سیٹ عملی طور پر متحدہ عرب امارات نے سنبھال لی ہے۔ اصل کمال تو یہ ہوگا کہ متحدہ عرب امارات یا کوئی بھی تیسرا فریق پاکستان کی اسپیس کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی چند قدم پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو وگرنہ تو پاکستان کے لیے کشمیر میں خسارا ہی خسارا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button