کالم

جذباتی ہجوم میں کچھ سنجیدہ لوگ

ایک ہلکے پھلکے لطیفے نما واقعہ آپ نے بارہا سن رکھا ہوگا کہ دو عربی آپس میں لڑرہے تھے، قریب سے کچھ پاکستانی خواتین گزر رہی تھیں انہوں یہ کہتے ہوئے فورا سر پہ دوپٹا رکھ لیا کہ یہ لوگ قرآن شریف پڑھ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جب قومی زبان کا مسئلہ چل رہا تھا اس وقت کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تجویز آئی تھی کہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لیے اس کی قومی زبان عربی ہونی چاہیے اگر یہ بات مان لی جاتی تو مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے پر ہنگاموں میں کچھ بنگالی ہلاک ہوتے نہ اچھرہ لاہور کا واقعہ پیش آتا۔ اردو تو ہماری مادری زبان تھی ہی اگر عربی قومی زبان بن جاتی تو اس فیصلے کے نفاذ کے بعد ہم اتنی عربی تو سیکھ لیتے کہ ہمارے بچے بوڑھے سب قرآن کے معنی سمجھ لیتے اور انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ ان کے رب نے ان کے لیے کیا پیغام بھیجا ہے اور کچھ کچھ احادیث بھی سمجھ لیتے اس لیے کہ حدیث کی عربی بہ نسبت قرآنی عربی کچھ مشکل ہے۔ علما حضرات عربی زبان سیکھنے کی تین اہم وجوہات بتاتے ہیں پہلی تو یہ کہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید جس پر ہم سب کا ایمان ہے عربی زبان میں ہے دوسری وجہ یہ کہ ہمارے پیارے نبی جن سے ہم عشق کا دعوی کرتے ہیں ان کی زبان عربی تھی اور تیسری وجہ یہ کہ جنت کی زبان عربی ہوگی۔ ہمارے یہاں اکثر نوجوان کسی عرب ملک میں جانے کی تگ و دو کرتے ہیں کچھ کا تقرر ہو بھی جاتا ہے تو وہ عربی زبان کی کلاسوں میں شرکت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں بھی اگر قرآن سے، اپنے نبی مہربان سے اور جنت سے محبت ہے تو ہمیں خود بھی اور اپنے بچوں کو عربی زبان سیکھنا اور سکھانا چاہیے۔ ویسے بھی عربی زبان میں اسلامی لٹریچر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ دوہزار سال گزرجانے کے باوجود عربی زبان کے اسٹرکچر میں کوئی فرق نہیں آیا ورنہ دنیا کی دیگر زبانیں ایک ہزار سال میں بدل جاتی ہیں یا ختم ہوجاتی ہیں۔ چونکہ قرآن مجید و فرقان حمید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ہوا ہے اور اسی لیے عربی زبان پر قدرت کا یہ احسان ہے کہ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آیا۔ آپ پانچ سو سال پرانا کوئی قرآن اٹھالیں اور آج کے دور کا پرنٹ کیا ہوا کوئی قرآن لے لیں آپ کو اس میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ عربی زبا ن کے کچھ ضمنی فوائد بھی ہیں، جو لوگوں کو ملتے رہتے ہیں۔ ضمنی فوائد کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
ہمارے ایک دوست کا چھوٹا بھائی تھا جس کی عمر 14سال ہوگی۔ وہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں بطور ہیلپر لگ گیا اس بچے کو میں نے بھی دیکھا ہوا تھا اچھا خوش اخلاق اور ادب احترام والا تھا اور کسی برے فعل میں بھی نہیں تھا۔ ہوٹل میں کچھ لوگوں سے اس کا رابطہ ہوا انہوں نے کہا ہماری ایک کمپنی ہے جو لوگوں کو باہر بھیجتی ہے، تم باہر جانا چاہو گے، سہانے مستقبل کے شوق میں وہ فورا تیار ہوگیا اسی گروپ نے اس کا پاسپورٹ بنوایا اور سعودی عرب کا ٹکٹ بنوا کر اسے روانہ کرتے وقت کہا کہ جدہ ائر پورٹ پر کمپنی کے کچھ لوگ آئیں گے جو تمہاری ملازمت کا انتظام کریں گے اور یہ ایک کیرم بورڈ ہے ان کو دے دینا۔ کراچی ائر پورٹ سے ضروری کارروائی کرکے اسے جہاز پر سوار کروادیا جدہ ائر پورٹ پر اس کے سامان کی چیکنگ ہوئی تو معلوم ہوا کہ کیرم بورڈ کے چاروں طرف کی لکڑی میں چرس بھری ہوئی اس زمانے میں ہیروئن متعارف نہیں ہوئی تھی اس کو گرفتار کرلیا گیا عدالت میں مقدمہ چلا اس جرم میں تو وہاں سزائے موت ہوتی ہے لیکن کم عمری کی وجہ سے اسے 14سال کی سزا ہوئی۔جیل میں اس نے عربی زبان لکھنا پڑھنا سیکھی یہاں اس کے گھر والے بہت پریشان ہوئے اس کے بڑے بھائی جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے کہ جماعت اسلامی کے ذریعے سے کوئی مدد ہوسکے تو کچھ کروادیں اس کی جان بچ جائے میں نے کہا کہ یہ ایک غیر ملک کے قانون اور عدالت کا مسئلہ ہے ملک کے اندر کی کوئی بات ہوتی تو کچھ کیا جاسکتا تھا بہرحال دعا کیجیے۔ کچھ دن کے بعد دوست ملے تو بتایا کہ وہ تو جیل سے پیسہ بھیج رہا ہے۔ تفصیل بتائی کہ جیل میں اس کے اچھے رویے کی وجہ سے جیل حکام کا رویہ بہت نرم ہے اور یہ کہ جو کام اس سے جیل میں لیا جاتا ہے اس کی ہفتہ وار جو ادائیگی ہوتی ہے وہ جمع کرکے کچھ دن بعد گھر بھیج دیتا ہے۔ اسی طرح جیل میں جو ناخواندہ قیدی ہیں وہ اس سے اپنے گھروں کے لیے خط لکھواتے ہیں تو اس کے کچھ پیسے بھی انعام کے طور پر اس کو دیتے ہیں۔ اس کے اچھے رویے کی وجہ سے اس کی سزا کو دن رات میں الگ الگ گنا گیا اس طرح 14سال کی سزا 7سال ہوگئی کچھ اس کو جیلر کی طرف سے رعائتیں ملیں اس طرح وہ پانچ سال بعد رہا ہوگیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button