کالم

سابق صدر کے۔ ایچ ۔خورشید کی اہلیہ محترمہ بیگم ثریا خورشید کی وفات

سابق صدر آزاد کشمیر و بانی صدر آزادجموں و کشمیر لبریشن لیگ خورشید حسن خورشید کی اہلیہ محترمہ ثریا خورشید30 جنوری2024ء کو لاہور میں وفات پا گئیں اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ان کا نماز جنازہ31جنوری2024ء کو لاہور میں پڑھا گیا۔ معلومات کے مطابق مرحومہ لاہور ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔مرحومہ کی وفات پر تمام سیاسی قائدین بالخصوص صدر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے بھی گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور اور دعائے مغفرت کی گئی۔ جس کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ آزاد کشمیر بھر میں لبریشن لیگ کے کارکنان اور تمام سیاسی و سماجی رہنماؤں نے افسوس کا ا ظہار کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی۔محترمہ بیگم ثریا خورشید کی تاریخ پیدائش27 اپریل1932 کے مطابق ان کی عمر92 سال تھی۔مرحومہمقبوضہ کشمیر جموں کے علاقہ ادھم پور کے مقام پر پیدا ہوئیں جن کا اصل وطن سرینگر ہے۔ ان کا خاندان کشمیر کے پڑھے لکھے خاندان میں شمار ہوتا تھا۔ان کے والد ڈاکٹر نور حسین جو کے ایچ خورشید کے حقیقی چچا زاد تھے، محکمہ ہیلتھ کے ڈائریکٹر تھے اور مہاراجہ کے ذاتی معالج بھی تھے اور جموں میں قیام پذیر رہے۔ کیونکی سردیوں کے موسم میں سرینگر سے دارلحکومت جموں میںمنتقل ہوتا تھا۔بیگم ثریا خورشید دسویں جماعت میں پڑھتی تھیں کہ1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئیں۔ کچھ عرصہ راولپنڈی اور سیالکوٹ میں بھی رہیں۔ ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔1944ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح سیالکوٹ کے راستے جموں سے سرینگر تشریف لے گئے جن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح بھی تھیں انھوں نے سرینگر میں 77 دن قیام کے کے دوران کے ایچ خورشیدجن کی ایک سٹوڈنٹس لیڈر کی حیثیت سے سرینگر میں ان کے ملاقات ہوتی رہی۔کے ایچ خورشید کی ذہانت سے متاثر ہو کر قائداعظم محمد علی جناح نے اپنا پرائیوٹ سیکرٹری منتخب کیا جو 1947 تک رہے۔ بیگم ثریا خورشید کو بھی اس دوران قائداعظم اور ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو مہاجرین کا سلسلہ شروع ہوا تو محترمہ ثریا خورشید جو خود لکھتی ہیں کہ وہ سرینگر سے آخری بس پر راولپنڈی پہنچی تھیں۔ جہاں تک کے ایچ خورشید مرحوم کا تعلق ہے وہ سرینگر کے رہنے والے تھے اور 1924ء کو پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام مولوی محمد حسن تھا جو ایک سکول ٹیچر تھے۔کے ایچ خورشید جو قائداعظم کی اجازت سے اپنے والدین کو ملنے سرینگر چلے گئے تھے بعد ازاں وہاں گرفتار بھی ہوئے اور بعد میںپاکستان پہنچائے گئے ۔جو کہ ایک دانشور سیاست دان کی حیثیت سے پاکستان و آزاد کشمیر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔آزاد کشمیر حکومت کے صدر بھی منتخب ہوئے بعد میں سیاسی جماعت جموں کشمیرلبریشن لیگ بنائی ۔اپنے دور حکومت میں کے ایچ خورشید نے آزاد کشمیرمیں ایک جمہوری نظام حکومت کا آغاز کیا۔تاریخ کے مطابق آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کی ابتداء 1934-35 میں کشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے انعقاد کے بعد ہوئی تھی جو آج بھی آزاد کشمیر حکومت اُسی کے متبادل قائم ہے۔ لیکن جب مقبوضہ جموں کشمیر آزاد ہو گا تو پھر پاکستان سے الحاق ہو گا چونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ معلومات کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح نے آزاد کشمیر حکومت کے نام سے قائم کرنے کی ہدایت کی تھی جس کا آغاز 24 اکتوبر1947 ء کو ہوا ہے۔ جہاں تک بیگم ثریا خورشید کی حالات زندگی میں قومی و ملی خدمات کا تعلق ہے۔وہ اپنے شوہر کے ایچ خورشید کی وفات 1988کے بعد کچھ عرصہ لبریشن لیگ کی سربراہ بھی رہیں۔ بعد میں سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں۔ لیکن سماجی کاموں میں متحرک رہیں۔ محترمہ ثریا خورشید 1990-91میںآزاد کشمیر اسمبلی کی رکن بھی رہیں ۔اُنھوں نے یو۔این۔او کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کی خواتین پر ہونے والے مظالم پر اظہار خیال بھی کیا تھا۔ بیگم ثریا خورشید سے کے ایچ خورشید کی شادی31 دسمبر1955ء میں ہوئی ۔ آزاد جموں و کشمیر کی ایک عظیم سیاسی شخصیت کے ایچ خوررشید کی ہمسفر رہیں۔ بیگم ثریا خورشید کی وفات سے کشمیری قوم ایک عظیم مادر ملت سے محروم ہو گئی ہے۔ جنہوں نے تحریک آزاد ی کشمیر اور آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی ، خوشحالی اور جمہوری روایات کی پاسداری میں کے ایچ خورشید مرحوم کی طرح مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ محترمہ نے ساری زندگی سادگی کفایت شعاری اور ایمانداری سے بسر کی۔محترمہ ثریا خورشدی کی اولاد میں سے بڑی بیٹی محترمہ یاسین ہارون ہے۔ ایک بیٹا ایرج خورشید14 سال کی عمر میں فوت ہوا۔ دوسرا بیٹا عروج خورشید1969 میں پیدا ہوا اور 1974 میں اس کا انتقال ہوا۔جبکہ محترم خرم خورشید جو کہ 1961 کو پیدا ہوا جو کہ ماشاء اللہ حیات ہے اور انگریزی ادب کا استاد ہے۔ محترمہ ثریا خورشید کی وفات کے بعد راقم جس کا کے ایچ خورشید مرحوم سے سیاسی تعلق رہا ہے دعا اور فاتحہ کے لیے محترم خُرم خورشید صاحب کے پاس حاضری کیلئے لاہور گیاتھا۔ بلاشبہ محترم خُرم خورشید بھی اپنے والد محترم کی طرح ایک علمی کشمیری دانشور ہیں جن میں اپنے والدین کے قدر دانوں کی عزت افزائی کی صفت موجود ہے۔ محترمہ ثریا خورشید مرحومہ ایک نامور مصنفہ بھی تھیں جنہوں نے بانہال کے اُس پار، چناروں کے سائے، املتاس کے پیڑ، یادوں کی کہکشاں، جموں کی دیادیں،فاطمہ جناح کے شب و روز اپنا وطن اپنی یادیں لکھیں۔1980ء کی دہائی میں انہیں کشمیر جانے کا موقع ملا۔ ۔انھوں نے اس سفر اور قیام کے واقعات کو قلمبند کیا تھا۔ ان کے ایک بھائی خالد بھی ایک مصنف تھے اور اخبارات میںلکھتے تھے۔جبکہ سابق صدر کے ایچ خورشید مرحوم اپنے دور اقتدار کے بعد بھی پاکستان کے حکمرانوں کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں بتاتے تھے۔ جو اقوام متحدہ تک گئے۔جب سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم آزاد کشمیر کے دوروں پر آتے تو کے ایچ خورشید مرحوم سے ملاقات کرتے اور ان کی عزت افزائی اور تعریفی الفاظ میں ذکر کرتے تھے جو کہ ایک تاریخی ریکارڈہے۔ جب1988ء میں کے ایچ خورشید میرپور آزاد کشمیر سے لاہور اپنے گھر جاتے ہوئے ایک حادثے میں فوت ہوئے تو بعد میں بتایا گیا کہ مرحوم کی جیب سے صرف سینتیس روپے برآمد ہوئے۔ لاہور میں نماز جنازہ کے بعد ان کی وصیت کے مطابق اور آزاد کشمیر کے سیاسی قائدین کی مشاورت کے مطابق ان کے جنازہ کو مظفرآباد لایا گیا۔ جہاں آج مدفون ہیں۔ جس طرح قائداعظم کا مقبرہ ہے کی طرح آزاد کشمیر حکومت نے ایک یادگار مقبرہ تعمیر کیا ہے۔ ہمارے قائدین کی بدقسمتی ہی سہی،جس کا ثبوت یہ ہے کہ کے ایچ خورشید مرحوم پوری زندگی کرائے کے مکان میں رہے۔ غالباً مالی معاملات نہ ہونے کی بنا ء پر اپنا مکان تک تعمیر نہ کر سکے۔ حالانکہ وقت کی حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ ایک مہاجر کی حیثیت سے معاونت کی جاتی۔ اب بھی حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کی ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ کے ایچ خورشید مرحوم کی قومی اور ملی خدمات کے عوض ان کی اولاد کیلئے مکانات وغیرہ بنا کر دیئے جائیں اور حج و عمرہ کیلئے اخراجات بھی دیئے جائیں ورنہ کل قیامت کے دن بقول حضرت عمر حکمران ذمہ دار ہوں گے۔
کشمیر کی تاریخ میں کے ایچ خورشید مرحوم واحد شخصیت تھی جو قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ رہے اور برطانیہ کے دوروں تک جاتے رہے۔جبکہ قائداعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ پاکستان میرے ایک پرائیوٹ سیکرٹری نے بھی بنایا ہے۔ریاست جموں وکشمیر کے بڑے سیاسی، بڑے رہنماؤں میں بڑے منفرد رہنما تھے۔ جنہیں قدرت نے علم و ادب ،تاریخ، صحافت، سیاست، قانون اور خطابت کے تمام جوہروں سے نواز رکھا تھا۔آخر میں متحرمہ ثریا خورشید مرحومہ کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button