کالم

ڈاکٹر عافیہ ہم شرمندہ ہیں

جب میں یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں تو ساری دنیا میں خواتین کے حقوق کا عالمی دن زور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے سیمینار اور فنکشن ترتیب دئیے گئے ہیں۔ عالمی حقوق نسواں کے علمبردار مرد و زن دھواں دھار تقاریر کر رہے ہیں۔اپنے فن خطابت سے خواتین کے حقوق کو دنیا پر عیاں کیا جا رہا ہے۔عورتوں کے ساتھ مساوی حقوق کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بعض جگہوں پر عورتوں کے حقوق کے لئے ریلیاں اور جلسے بھی انعقاد پذیر ہو رہے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری بھی ہے کہ عورتوں کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہئیں۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق پر شدید زور دیا ہے اور معلم کائنات ۖ نے سب سے پہلے آ کر عورتوں کو جائیداد اور وراثت میں حصہ دے کر عورتوں کے حقوق کی سب سے پہلی اینٹ رکھی۔یہ سب کچھ درست مگر آج میں بنت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حقوق کی بات کروں گا۔ ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ نے 2003ء سے غیر قانونی طور پر قید کر رکھا ہے۔ خواتین کا عالمی دن منانے والے اس ایشو کو دنیا بھر میں کیوں اجاگر نہیں کرتے۔۔۔ انہیں کس کا ڈر ہے۔۔۔اور اگر انہیں کوئی خوف ہے تو وہ خواتین کا عالمی دن منانے کا ڈرامہ کیوں کر رہے ہیں؟؟؟؟؟ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی ایک عظیم سائنسدان ہے جسے امریکہ نے نہ صرف جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں جنسی تشدد کا بھی شکار کیا اور ستم یہ کہ انہیں چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اے عالمی یوم نسواں منانے والو ہمیں عافیہ کا جرم تو بتا دو۔۔۔ یا اپنی مہر لگی زبانوں کو کھولو اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرو۔ ورنہ یہ سب ڈرامے بازی چھوڑ ہی دو تو اچھا ہے۔ڈاکٹر عافیہ دو مارچ انیس صد بہتر کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم زیمبیا سے حاصل کرنے کے بعد ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کراچی سے ہی حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے جامعہ ٹیکساس سے علم کے موتیوں سے دامن بھرا۔ پھر وہMIT چلی گئیں اور وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔دو ہزار دو میں حصول ملازمت کے لئے پاکستان آئیں لیکن ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے دوبارہ امریکہ چلی گئیں۔اس دوران ڈاک وصول کرنے کے لئے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور دو ہزار تین میں واپس پاکستان آ گئیں۔FBI کے خیال کے مطابق یہ ڈاک ڈبہ ڈاکٹر نے طالبان سے تعلق میں رہنے کے لئے حاصل کیا تھا۔امریکی میڈیا نے انہیں دہشت گرد قرار دیا۔ اس پر وہ کچھ عرصے تک کراچی میں روپوش رہیں۔30 مارچ 2003ء کو جب وہ اپنے تین بچوں سمیت ٹیکسی میں ہوائی اڈے کی جانب جا رہی تھیں تو پاکستانی ایجنسی کے اہلکاران نے انہیں گرفتار کر کہ امریکہ کے حوالے کر دیا۔اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی، جب کہ ان کے بڑے بچے کی عمر چار سال اور چھوٹے بچے کی عمر صرف ایک ماہ تھی۔اس واقعے کو پاکستانی میڈیا نے خوب اچھالا ،مگر حکمرانوں نے اس واقعے سے قطعی لا تعلقی اور بے خبری کا اعلان کر دیا۔اسی دوران ان کی والدہ کو شدید ذہنی کوفت میں رکھا گیا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔عالمی اداروں کے مطابق قیدی نمبر 650عافیہ صدیقی ہی ہے جس کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔پاکستانی اخبارات کے واویلے پر امریکہ نے 27جولائی 2008ء کو یہ اعلان کیا کہ عافیہ کو افغانستان سے امریکہ منتقل کر دیا گیا ہے ،جہاں ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔جب امریکیوں نے عافیہ کو قید میں رکھا تھا تو اس دوران ان پر شدید فائرنگ بھی کی گئی اور بتایا جاتا ہے کہ وہ اس فائرنگ کی وجہ سے نیم مردہ حالت تک جا پہنچی تھیں۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ عافیہ نے ان کے فوجیوں پر بندوق سے حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جس وجہ سے اسے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بعض حلقوں کے مطاب پرویز مشرف نے ڈاکٹر کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔اگست 2009ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانے بتایا کہ حکومت دو بلین ڈالر امریکی وکیلوں کو دے گی جو عافیہ کا مقدمہ لڑیں گے۔یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کی عدالت نے یہ رقم ادا کرنے سے منع کر دیا تھا اور مؤقف ظاہر کیا تھا کہ اس رقم کو خرد برد کر دیا جائے گا لہذا اس رقم کو امریکی وکیلوں کے بجائے عالمی عدالت برائے انصاف کو ادا کیا جائے۔دسمبر 2009ء میں پولیس نے عافیہ اور ان کے بچوںکے اغواء کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ستمبر 2010ء میں پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکہ سے عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔23ستمبر 2010ء کو امریکہ نے نیو یارک میں عافیہ کو چھیاسی سال قید کی سزا سنائی۔2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ دو دن تک بے ہوش رہیں۔ڈاکٹر عافیہ نے 1995ء میں پاکستان میںامجد محمد خان سے شادی کی۔ 1996میں ان کے ہاں بیٹا محمد احمد اور 1998میں بیٹی مریم پیدا ہوئی۔2002 میں امجد خان نے طلاق دے دی ۔2003میں عمار بلوچی سے نکاح ہوا۔اپریل 2010کو ایک گیارہ سالہ لڑکی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عافیہ کے ساتھ لاپتہ ہوئی تھی کوئی لوگ عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کے گھر چھوڑ گئے۔یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ عالمی ادارہ اسلامی تحقیق و تدریس کی صدر تھیں۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کی کوشش کی۔ ۔۔۔لیکن کیا انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کی طرح دن دیہاڑے فیضان اور فہیم کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ کیا انہوں نے اپنی گاڑی کے نیچے کسی امریکی راہگیر کو کچل ڈالا۔ کیا انہوں نے فیضان کی بیوی کو خود کشی پر مجبور کیا؟؟؟؟؟اے عالمی خواتین کا دن منانے والو ۔۔۔ خدا کا خوف کرو اور مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرو کہ عافیہ کتنی بڑی مجرم ہے؟؟؟؟؟ ساتھ ساتھ مجھے بتائیے کہ،، ثناء خوان دختر مشرق کہاں ہیں،،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس لیکن world women,s day منانے والو پلیز ایک نظر مظلوم ڈاکٹر عافیہ پر بھی ڈالو۔ ورنہ یہ ہلہ گلہ آپ پر جچتا نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button