کالم

8 مارچ، خواتین کا عالمی دن

8 مارچ کو بین الاقوامی طور پر خواتین کا دن منایا جاتا ہیامریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ صدارتی اعلان میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے اس دن خصوصا چند ممالک جیسے چین، نیپال اور کیوبا میں خواتین کو کام سے چھٹی دی جاتی ہے عرب دنیا میں بھی 8 مارچ کو ہر سال ” یوم المر العالمی ” کا دن منایا جاتا ہے۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس دن منایا جاتا ہے جس کے حوالے سے تقریبات، سیمینارز اور ٹاک شوز کے ذریعے خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہیاور خواتین کو درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے خواتین کی قابلیت اور صلاحیت کے گیت گائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں طبقاتی تقسیم کیوجہ سے خواتین کو بے شمار مصائب ،تکالیف اور کرب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بیو ک صورت میں عورت کوکھانے میں نمک کم یا زیادہ ہونے پر بالوں سے پکڑ کر گھسٹا جا رہا ہوتا ہیبیٹی کو پسند کی شادی کا نام لینے پرغیرت کے نام پر قتل کر دیاجاتا ہے ماں کو گھر کا فالتو سامان سمجھ کر اولڈ اوسز میں بھیج دیا جاتا ہے اور بہن کی جائیداد پر قبضہ کرکے جہیز دیکر رخصت کر دیا جاتا ہے اور ان مردوں ک ستم ظریفی دیکھوں کہتے ہیں کہ لاکھوں کا جہیز دے دیا اب انکا کونسا حصہ باقی رہ گیا۔ اکثر اوقات معصوم ننھی کلی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر پھینک دیا جاتا ہے عورت کو کھلونا سمجھا جاتا ہے جب تک دل کرتا ہے کھیلا جاتا ہے۔ اور جب بیزار ہو جائے تو اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتاہے اور دوسرے کھلونے کو لانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے ہمارے معاشرے میں عورت دشمی کا بھینٹ بھی چڑھ جاتی ہے اور کچھ مرد عورت کے چہرے کو جھلسا کر اپنی انا کو تسکین بھی دیتے ہے۔ سکے کا ایک پہلو اوربھ ہے پڑھے لکھے لوگ اپنی بیٹیوں ک تعلیم وتربیت کو بہت اہمیت دتے ہے بیرون ممالک تک پڑھنے کیلئے بھیجتے ہے ہمارے ہاں بہت س خواتین اپن محنت کے بل بوتیپر اعلی عہدوں پر فائز ہیں جن میں وزیر اعظم ، اسپکر قومی اسمبلی ،وفاق وزرا اور مسلح افواج کے عہدوں پر فائز ہیںاسلام میں عورت کوماں ،بہن اور بیٹی کے بلند درجے پر فائز کیا گیا ہے عورت جب بیٹی بنتی ہے تو باپ کیلئے جنت کا دروازہ کھل جاتا ہے بیوی بن کر شوہر کا آدھا دین مکمل کرواتی ہے. ماں بن کر جنت اپنے قدموں کے تلے رکھ لت ہیاسلام میں عورت کے مرتبے کی شان تو دیکھو کہ حضور پاک نے فرمایا مجھے عائشہ کے بسترمیں وحی آتی ہیاسلام حکم دیتا ہے کہ اگر عورت اور مرد کا نباہ نہ ہو سکیس تو طلاق کی صورت میں عورت کے ساتھ حسن سلوک کرکے اسے رخصت کر دینا چاہیے لیکن ہمارے معاشرے میں طلاق کے معاملات میں عورت کو بہت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ اگر عورت کے ساتھ رہنا ہے تو اچھے طریقے سے رہو ورنہ بھلے طریقے سے اسکو رخصت کر دو. لیکن ایک سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عورت بعض اوقات اپنی عزت اور حقوق کو کیچڑ کے ڈھیر میں پھینک کر خود کو پر سکون محسوس کرتی ہیں۔ عورت خود کو نیم برنہ کر کے فلم ٹی وی اور سٹیج پر ناچتی ہے اور پھر اسکو آزادی کا نام دے دیا جاتا ہے اور کچھ خواتین اپن جائیداد میں اپنا حصہ اپنے بھائی کو دے کر کہتی ہے کہ میرے کفن دفن کا انتظام بھائی نے کرنا ہے مطلب جائیداد کا حصہ اپنے بھائی کو نہ دینے پر کفن دفن سیمحروم رہں گ نادان عورت۔ کچھ خواتین بینرز پر ایسے جملے لکھوا کر نکل پڑتی ہیں کہ جیسے آج ساری آزادی لے کر ہں گھر واپس جائیں گی اور ان جملوں کو پڑھ کر نہ صرف مرد دوسری عورت بھی شرما جائے۔ جیسا کہ جملہ تھا”عورت بچہ پداکرنے کی مشین نہیں ہے” حالانکہ بچہ پیدا کرنے کے بعد ہی ماں کے مقام پر فائز ہو کر جنت کو اپنے قدموں تلے کر سکتی ہے۔ہماری حکومت اور میڈیا کو عوام میں بیدار پیدا کرنے کیلئے ایسا نظام کو ترتیب دینا چاہیے جہاں عورت کو وہ مقام حاصل ہو جس کا درس ہمارا دین دیتا ہے عورتوں کو مخلوط تعلیمی اداروں اور جاب والی جگوں پرمحفوظ ماحول دینا چاہیے جہاں عورت بغیر کسی استحصال کے اپناکام کر سکیں ۔ اسے لوگ جو عورت کے حقوق سلب کرنے کلے مختلف رواجوں کو جنم دیتے ہیں قانون پر عمل پیرا ہو کر انہیں سزا دیلوانی چاہیے جو حقوق اسلام عورت کو دیتا سے ان کو پورا کرنا چاہیے ہمیں عورت کے حقوق کیلئے اندھا دھند مغرب کی پیروی کرنے کے بجائے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button