بالآخرعام انتخابات کے انعقاد کے 21ویں روز 16ویں قومی اسمبلی وجو د میں گئی صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی کا ایوان نامکمل ہونے کا بہانہ بنا کر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا تھا لیکن 28فروی2024 کو رات پونے بارہ بجے سمری پر دستخط کر کے سرپرائز دیا شنید ہے راولپنڈی سے آنے والے ”پیغام رساں” نے انہیں با وقار طریقے سے ایوان صدر سے روانگی کے لئے سمری پر دستخط کرنے کا آپشن دیا جس کے بعد انہوں نے فوری طور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سمری پر دستخط کر دئیے صدر مملکت عارف علوی کے عہدہ کی مدت ستمبر 2023ء میں ختم ہو گئی تھی لیکن مقتدرہ نے انہیں نئے صدر مملکت کے انتخاب تک اعلیٰ منصب کو انجوائے کرنے کی اجازت دے دی جب کہ صدر کو گھر بھجوا کر اس منصب پر چیئرمین سینیٹ کو براجمان کیا جا سکتا تھاصدر مملکت پی ٹی آئی کی محبت اپنے دل سے نکال نہ سکے وہ قدم قدم پر شہباز شریف اور انوار الحق کاکڑ کی حکومتوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہے بد قسمتی سے پاکستان میں پارلیمنٹ کے انتخابات کی تاریخ اچھی نہیں بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گا عام انتخابات کے انعقادکی تاریخ انتہائی افسو ناک ہے اگرچہ 1970ء کے انتخابات کی ”شفافیت ” کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن یہ انتخابات بھی شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے جنرل یحییٰ خان نے” ون مین ون ووٹ ” کے پارلیمانی اصولوں پر انتخابات کرائے تو56فیصد آبادی کے صوبہ میں شیخ مجیب الرحمن نے دو ارکان کے سوا کسی سیاسی جماعت کے ایک رکن کو بھی منتخب نہیں ہونے دیا جماعت اسلامی کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی کو پلٹن میدان میں جلسہ نہیں کرنے دیا گیا عبد المالک متحدہ پاکستان کا پہلا شہید تھا جو عوامی لیگ کے کارکنوں کے ہاتھوں پلٹن میدان میں اپنی جان ہاتھ دھو بیٹھا جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں نے 1970کے انتخابات کی شفافیت انگلیاں اٹھائی ہیں 1970کے انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان دو لخت ہو گیا سیاسی قیادت سیاسی ایشوز کو ڈائیلاگ سے حل کرنے میں ناکامی ہوئی تو نوبت فوجی آپریشن تک جا پہنچی جس کی آڑ لے کر بھارت نے اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر پاکستان کے مشرقی حصے کو مغربی حصے سے الگ کر دیا ذوالفقار علی بھٹو نے7مارچ1977ء کے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف ملک گیر تحریک چلی جس کے نتیجے میں نہ صرف انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھ کر امر تو ہو گیا لیکن پاکستان 10سال تک فوجی آمر کی حکومت مسلط رہی ضیا الحق نے اپنی ضرورت کے مطابق غیر جماعتی انتخابات تو کرا دئیے لیکن وہ ایک ”کمزور اور ناتواں ” وزیر اعظم کو بھی برداشت نہ کر سکے اور اس کی چھٹی کرا دی ضیا الحق کی شہادت کے بعد پاکستان میں” کنٹرولڈ ڈیماکریسی ”کا ایسا دور شروع ہو ا کہ کسی منتخب وزیر اعظم کو اس کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی 18،18ماہ کی حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل 58(2 ) بی کے بے رحمانہ استعمال سے ذبح کیا جاتا رہا جمہوری حکومتوں کو کنٹرول کرنے اور راہ راست پر لانے کے لئے صدر مملکت کے منصب کو اتنا طاقت ور بنا دیا گیا کہ منتخب وزیر اعظم کوکوئی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل ایوان صدر کے مکین کی آشیر باد حاصل کرنا پڑتی جب کہ صدر مملکت کا منصب کہیں اور کنٹرول کیا جاتا رہا اس دور میں ہونے والے انتخابات بھی شفاف نہیں رہے کبھی پیپلز پارٹی کو کامیاب بنا دیا جاتا اور کبھی مسلم لیگ (ن) کو ۔ دونوں جماعتوں کو آپس میں لڑانے کی پالیسی جاری رکھی گئی اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور 1997ء میں مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی جس کے زور پر نواز شریف نے آئین میں 14ویں ترمیم کر کے ضیاالحق کی متعارف کردہ8ویں ترمیم کو اڑا کر رکھ دیاپرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کر کے ایک بار پھر نیم مارشلائی اور نیم جمہوری نظام متعارف کرا دیا اوران کے دور میں ہونے والے دونوں انتخابات کسی طور پر بھی شفاف نہیں تھے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حجم سکڑ کر چند نشستوں تک محدود کر دیا گیا پھر جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک صفحہ پر ہوئیں تو آمر مطلق کو ایوان صدر سے نکلنا پڑا 2002، 2008 کے انتخابات بھی شفاف نہیں تھے2013کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو آصف علی زرداری نے آروز کاالیکشن قرار د قرار دیا عمران خان 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اورحلقوں کو کھولنے کی آڑ 126تک وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کا امن تہ و بالا کئے رکھا عدالتی کمیشن بنایا گیا جس میں عمران خان دھاندلی ثابت کر سکے اور نہ ہی کمیشن کیرپورٹ کو تسلیم کیا نواز شریف کی حکومت ختم کرنا ممکن نہ ہوا تو ان کو عدالتی فیصلے کے ذریعے حکومت سے نکلوا دیا گیا پھر 2018 میں” باجوہ ڈاکٹرائن ” کے تحت انجینئرڈ انتخابات ہوئے آر ٹی ایس بند کر کے جس بے دردی سے انتخابی نتائج تبدیل کئے گئے اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے نواز شریف بھی تحریک چلانے کے حق میں تھے لیکن آصف علی زرداری نے دونوں جماعتوں کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے30رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کے ٹی او آر ز بن پائے اور نہ ہی تین سے زائد اجلاس ہوئے جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کی فائل سپیکر چیمبر میں سر بمہر کر دی گئی 2024کے انتخابات بارے میں اسی طرح کی شکایات منظر عام پر آئی ہیں پی ٹی آئی نے 50سے80نشستوں کے نتائج تبدیل کرنے کا الزام عائے کیا ہے معلوم نہیں
کتنی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر نوازا گیا لیکن جہاں پی ٹی آئی انتخابی میلہ لٹ جانے پر مصر ہے وہاں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جن پر نواز شات کی بارش کا الزام ہے وہ بھی منقسم مینڈیٹ پر ناخوش دکھائی دیتی ہیں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب ، پیپلز پارٹی کو سندھ اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بلوچتان مل جانے پر مطمئن دکھائی دیتی ہیں وہاں مولانا فضل ارحمنٰ جمعیت علما اسلام کا حجم کم کرنے پر سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں معلق پارلیمنٹ (hung parliament) نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو marriage of convience کرنے پر مجبو کر دیا ہے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے90سے زائد آزاد پرندوں کو مسلم لیگ (ن) کے آشیانے میں پناہ لینے سے بچانے کے لئے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے عارف علوی کی روانگی کے بعد ایک بار پھر ایوان صدر میں آصف علی زرداری کا دربار لگنے والا ہے شہباز شریف کی حکومت کا قیام پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر ہو گا منقسم مینڈیٹ نے جہاں نواز شریف کا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا راستہ روکا ہے وہاں شہباز شریف کی حکومت کے لئے بے پناہ مشکلات ہوں گی سوال یہ ہے کیا یہ پارلیمنٹ چلے گی تو میرا جواب اسبات میں ہے راولپنڈی اور اسلام آباد ایک صفحہ پر رہے تو یہ پارلیمنٹ بھی چلے گی اور اس کے خلاف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو گی
0 40 5 minutes read