کالم

مفت اور معیاری تعلیم کا ہدف

انگریزی کے ایک مقولے کا ترجمہ ہے ”پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اپنا پہلا تاثر شاندار انداز میں قائم کر دیا ہے۔ اپنی پہلی تقریر میں ہی انہوں نے صوبے کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی ترجیحات اور اہداف کا اظہار کر دیا تھا۔ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے پہلے دن سے ہی انہوں نے اپنے متعین کیے گئے اہداف کے حصول کی جانب عملی طور پر پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ تعلیمی میدان میں اپنے ویژن ”مفت اور معیاری تعلیم پنجاب کے ہر بچے کی دہلیز پر” کے تحت محکمہ تعلیم کے افسران کے ساتھ میٹنگ کر کے انہیں واضح ہدایات جاری کر دی ہیں جن کی روشنی میں سیکریٹری ایجوکیشن نے پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز سے 10 مارچ تک ڈیٹا طلب کر لیا ہے۔ جس کی روشنی میں پرائمری سے ایلیمنٹری، ایلیمنٹری سے ہائی اور ہائی سے ہائیر سیکنڈری سکولز کو اپ گریڈ کرنے کے علاوہ سکولوں کی عمارت کی ضروریات کی فراہمی، مزید کمروں کی تعمیر اور مطلوبہ تعداد میں اساتذہ کی بھرتیاں کی جائیں گی۔ دیکھا جائے تو سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے بعد پہلی مرتبہ تعلیمی شعبے کی طرف توجہ دی گئی ہے۔پنجاب میں آخری مرتبہ جناب شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران 2017 میں اساتذہ کی بھرتیاں کی گئی تھیں۔ 2018 میں پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی۔ جناب عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا جو قریباً چار سال اس منصب پر براجمان رہے۔ مگر اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے اساتذہ کی بھرتی کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دی۔ ان کے دور کے وزیرِ تعلیم جناب مراد راس ایک انتہائی قابل اور محنتی وزیر تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مراد راس پوری کابینہ میں سب سے فعال وزیر تھے۔ انہوں نے محکمہ تعلیم میں انقلابی اصلاحات کیں۔ تمام سرکاری اساتذہ، ملازمین اور طلباء کا ڈیٹا آن لائن ہوا۔ اساتذہ کو بار بار دفاتر کے چکروں سے نجات ملی۔ ای ٹرانسفر کے ذریعے ہر سال ہزاروں اساتذہ کے تبادلہ جات گھر بیٹھے ہو گئے۔ ان میں کام کرنے کا جذبہ تھا۔ وہ ان تھک تھے اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر کر نہ سکے۔ تاہم جتنا کچھ کر دیا وہ قابلِ ستائش ہے۔ جناب مراد راس نے متعدد مرتبہ اساتذہ کرام کی بھرتیوں کی نوید سنائی۔ ان کی طرف سے کبھی 40 ہزار، کبھی 25 ہزار تو کبھی 15 ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کی خوش خبری دی گئی۔ آخری مرتبہ یہ تعداد گھٹتے گھٹتے 5 ہزار تک آ گئی مگر بھرپور کوشش کے باوجود وہ عثمان بزدار سے اساتذہ کی بھرتیوں کی منظوری حاصل نہ کر سکے۔ عثمان بزدار کی ترجیحات میں تعلیم آخری نمبر پر بھی نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں محکمہ تعلیم میں ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اختیار کی جاتی رہیں۔ انصاف آفٹر نون سکولوں کا اجراء بھی ایک ایسی ہی پالیسی تھی۔ دیہات میں اکثر پرائمری سکولوں کو انصاف آفٹرنون مڈل سکول اور مڈل سکولوں کو ہائی سکولوں کا درجہ دے دیا گیا مگر عملی طور پر ان اپ گریڈڈ سکولوں کی حیثیت ٹیوشن سنٹرز سے زیادہ نہیں ہے۔ ایف اے، بی اے اور ایم اے پاس ان ٹرینڈ لوگوں کو عارضی بنیادوں پر ان سکولوں میں بطور ٹیچرز بھرتی کیا گیا۔ ٹیچر کے لیے 15 ہزار اور ہیڈ ٹیچر کے لیے 18ہزار روپے تنخواہ مقرر کر دی گئی۔ یہ تنخواہ بھی کبھی چار اور کبھی چھ ماہ بعد دی جاتی ہے۔ جون، جولائی اور اگست کی تنخواہوں سے ان اساتذہ کو محروم رکھا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ستمبر تا دسمبر 2023 چار ماہ کی کی تنخواہ مارچ 2024 میں جاری ہوئی ہے۔ جنوری اور فروری کی تنخواہ ابھی تک نہیں ملی۔ ان اساتذہ کے گھروں کے چولہے کیسے جلتے ہوں گے؟ اس پر کبھی کسی نے غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اسی سے تعلیم کے معاملے میںبزدار، پرویز الٰہی اور گزشتہ نگران حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سکول صبح کے وقت پرائمری اور سہ پہر کو مڈل یا ہائی سکول بن جاتے ہیں مگر سہ پہر کو پڑھانے والے اساتذہ کو سرکاری اساتذہ جیسا سٹیٹس حاصل نہیں۔ ایک عام اور ان پڑھ مزدور سے بھی ان کی تنخواہ کم ہے اور وہ بھی باقاعدگی سے نہیں دی جاتی۔ یہی سلوک اعلیٰ و اعلیٰ ثانوی تعلیم کے ساتھ روا رکھا گیا۔ کالجز میں لیکچررز کی ہزاروں خالی اسامیوں پر مستقل بھرتی کی بجائے ہر سال پانچ ماہ کے لیے عارضی لیکچرار (سی ٹی آئیز) بھرتی کیے جاتے رہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بات کا فخریہ اظہار کیا جاتا کہ ہم نے تعلیم کی مد میں اتنے ارب روپے کی ”بچت” کی ہے۔ ایسی بچت کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔اس وقت پنجاب میں ایک لاکھ پندرہ ہزار کے قریب اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ ہر ماہ قریباً دو ہزار اساتذہ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد پہلے ہی بہت کم ہے۔ اساتذہ کی ریٹائرمنٹ سے موجودہ اساتذہ پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اوپر سے محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو جانے کس نے یہ باور کروا دیا ہے کہ پنجاب کی آبادی میں ہر سال دس فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے چنانچہ ان کی جانب سے تمام سکولوں کو ٹارگٹ دے دیا جاتا ہے کہ ہر سال ماہ اپریل میں سکول میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد کا دس فیصد داخلہ مزید بڑھائیں۔ دوسری طرف پرائیویٹ سکولوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ وہ مارچ کے پہلے ہفتے میں ہی سالانہ نتائج کا اعلان کر کے نئے داخلے کر لیتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے نتائج کا اعلان 31 مارچ کو اور داخلہ یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے۔ انہیں صرف وہی بچے داخلے کے لیے ملتے ہیں جن کے والدین پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں افورڈ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ ٹارگٹ پورا نہ ہونے کی وجہ سے پیڈا ایکٹ کے تحت انکوائریاں بھگتتے ہیں۔ یہ اساتذہ کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایک اور مسئلہ سرکاری اساتذہ سے مختلف قسم کی ڈیوٹیاں لینا ہے۔ کبھی وہ مردم شماری پہ ہوتے ہیں تو کبھی فوڈ سنٹروں پر، کبھی آٹا تقسیم کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی سستے رمضان بازاروں میں ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کی غیرنصابی اسائنمنٹس ختم کر کے انہیں ان کے فرائضِ منصبی تک محدود کر دیا جائے تو تعلیمی معیار بہت بہتر ہو جائے گا۔ صوبہ دہلی میں وزیرِ اعلیٰ ارویند کیجریوال نے اساتذہ کی تمام غیر نصابی ڈیوٹیاں ختم کر دیں۔ وہاں کے اساتذہ سرکاری سکولوں میں تعلیم کے معیار کو اس بلندی پر لے گئے کہ گزشتہ سال پرائیویٹ سکولوں کے پانچ لاکھ طلبہ نے اپنے سکول چھوڑ کر سرکاری سکولوں میں داخلہ لیا۔ وہاں گزشتہ سال بارہویں جماعت کا رزلٹ 99.7 فیصد رہا۔ ہمارے ہاں بورڈ کے رزلٹ خراب آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ استاد کو استاد نہیں بننے دیا جا رہا۔ سکول کے اندر بھی اس سے کلرک، سویپر، مالی، چوکیدار اور سیکورٹی گارڈ کا کام لیا جا رہا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف اپنے صوبے کے لیے بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ تعلیم یافتہ پنجاب کے راستے میں حائل تمام دیواروں اور رکاوٹوں کو دور کر کے اپنے ویژن پر عمل کرائیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button